سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ کی جانب سے فوجی عدالتوں سے متعلق متفرق درخواستوں پر سماعت

107
Supreme Court
Supreme Court

اسلام آباد۔7جنوری (اے پی پی):سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں سے متعلق متفرق درخواستوں پر سماعت آج بدھ 08جنوری کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدھ کو صرف اس کیس کی سماعت کی جائے گی جبکہ دیگر مقرر کردہ مقدمات کو بعد کی تاریخ طے کرنے کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے منگل کو آرمی ایکٹ 1956 کے تحت سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے متفرق درخواستوں کی سماعت کی۔کارروائی کے آغاز میں ہی جسٹس امین نے منگل کے لیے مقرر کردہ دیگر تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور فوجی عدالتوں کے مقدمے کی درخواستوں کی سماعت کی۔

دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے۔ انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے قبل ازیں قرار دیاتھا کہ فوج میں عام شہریوں کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے درخواست گزار اور متاثرہ فریق سے متعلق سوال کیا تو خواجہ حارث نے کہا کہ درخواست وزارت دفاع نے دائر کی ہے۔جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ جب ایگزیکٹو کے خلاف کوئی جرم ہوتا ہے تو ایگزیکٹو عدلیہ کے طور پر کیسے کام کرسکتا ہے؟ ایگزیکٹو اور عدلیہ کے دائرہ اختیار کے حوالے سے آئین واضح ہے جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جب کوئی دوسرا فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو معاملے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔

قانون نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ایک فورم فراہم کیا ہے۔ جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ صرف آرمی کے ارکان تک محدود ہے؟ تاہم وزارت دفاع کے وکیل نے دلیل دی کہ آرمی ایکٹ صرف فوج کے ارکان تک محدود نہیں ہے اور اس میں دیگر کیٹیگریز بھی ہیں ۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا کسی سویلین پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟عدالت نے کیس کی سماعت بدھ 08 جنوری کے لیے ملتوی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ صرف اس کیس کی سماعت کی جائے گی جبکہ دیگر مقرر کردہ مقدمات مقدمات کو بعد کی تاریخ طے کرنے کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔