اسلام آباد۔13اپریل (اے پی پی):حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے کہا ہے کہ ملک بھر کی وکلا برادری کے مطالبے پر عمل کرتے ہوئے پارلیمان نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 منظور کیاہے ،قانون سازی کا عمل مکمل ہونے اور اس کے نفاذ سےقبل سماعت کے لئے مقرر کرنے کا اقدام مسترد کرتے ہیں،آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمان کے اختیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔ حکومت میں شامل جماعتوں کی طرف سے جمعرات کو جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس نوعیت کا اقدام پاکستان اور عدالت کی تاریخ میں اس سے قبل پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
یہ ملک کی اعلی ترین عدالت کی ساکھ کو متاثر کرنے اور انصاف کے آئینی عمل کو بے معنی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بینچ بذات خود سپریم کورٹ کی تقسیم کا منہ بولتا ثبوت ہے جس سے حکومت میں شامل جماعتوں کے پہلے بیان کردہ موقف کی ایک بار پھر تائید ہوئی ہے۔ اعلامیے کے مطابق خود سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان اپنے فیصلوں میں ‘ون مین شو’، متعصبانہ و آمرانہ طرز عمل اور مخصوص بینچوں کی تشکیل پر اعتراضات کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ اعلامیہ میں کہاگیا 8 رکنی بینچ کی تشکیل سے عدالت عظمیٰ کے ان معزز جج صاحبان کے فیصلوں میں بیان کردہ حقائق مزید واضح ہو کر سامنے آ چکے ہیں۔
پاکستان ایک وفاق ہے، اس حقیقت کو نظر انداز کرکے دونوں چھوٹے صوبوں یعنی بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے کوئی جج بینچ میں شامل نہ کرنا بھی افسوسناک ہے۔ حکومت میں شامل جماعتیں اس اقدام کو پارلیمان اوراس کے اختیار سے متصادم تصور کرتی ہیں جس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ انتہائی عجلت میں بینچ کی تشکیل اور اس بل کو سماعت کے لئے مقرر کرنے سے ہی نیت اور ارادے کے علاوہ آنے والے فیصلے کا بھی واضح اظہار ہوجاتا ہے ۔اعلامیہ میں واضح کیاگیا کہ عدالت عظمی کے اقدام اور بینچ کی تشکیل پر پاکستان کی بارکونسلز کا بیان اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ یہ اقدام نہ صرف عدل وانصاف کے منافی ہے بلکہ مروجہ عدالتی طریقہ کار اور متعین اصولوں کے بھی برعکس ہے۔
مشترکہ اعلامیہ میں واضح کیاگیا کہ 12 اکتوبر2019کو لاہور میں آل پاکستان وکلا کنونشن نے قرارداد منظور کرکے پارلیمان سے مطالبہ کیاتھا کہ یہ قانون منظور کیاجائے۔ ملک بھر کی وکلا برادری کے اس مطالبے پر عمل کرتے ہوئے پارلیمان نے متعلقہ قانون منظور کیا۔ اعلامیہ میں واضح کیاگیا کہ پارلیمان کے اختیار اور اس کے دستوری دائرہ کار میں مداخلت کی ہر کوشش کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی، آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمان کے اختیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔