سپریم کورٹ کا پنجاب میں 14 مئی کو صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے انعقاد کا حکم، وفاقی حکومت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے لئے 10 اپریل تک 21 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرے

202
Supreme Court

اسلام آباد۔4اپریل (اے پی پی):سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی 2023ء کو صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے انعقاد کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے 10 اپریل 2023ء تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرے،

اس حوالہ سے الیکشن کمیشن 11 اپریل کو عدالت میں رپورٹ پیش کرے گا، چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کیلئے ضروری عملہ اور سکیورٹی کی فراہمی کے ذمہ دار ہوں گے، پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کیلئے وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 243 (1)، 148 (3) اور 220 کے تحت انتخابات کے حوالہ سے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی پابند ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن التواء کے حوالہ سے کیس کا فیصلہ منگل کو یہاں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے سنایا۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا 22 مارچ 2023ء کا آرڈر غیر آئینی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ عدالت نے ای سی پی کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 (2) کے تحت الیکشن کمیشن کو آئین میں دی گئی 90 روز کی مدت کے اندر انتخابات کرانے کے حوالہ سے تاریخ میں توسیع کا کوئی آئینی اور قانونی اختیار حاصل نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے ای سی پی کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 57/2 کے تحت 8 مارچ 2023ء کو جاری کردہ انتخابی پروگرام کے نوٹیفکیشن نمبر 2 (3)/2023-Cord) کے تحت پنجاب میں صوبائی انتخابات کے نظام الاوقات فی الفور بحال کرتے ہوئے اس میں بعض ترامیم کی ہیں۔ فیصلہ میں قرار دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے غیر قانونی طور پر انتخابات ملتوی کرنے کا حکم 22 مارچ 2023ء کو اس وقت جاری کیا جب الیکشن کے عمل کے پانچ مراحل مکمل ہو چکے تھے، اس لئے پنجاب میں انتخابات کے 6 تا 11 تک کے مراحل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کمیشن کے غیر آئینی فیصلہ سے 13 دن ضائع ہوئے ہیں جس کے تناظر میں الیکشن کے بقیہ مراحل میں توسیع کی جاتی ہے اور اس حوالہ سے الیکشن پروگرام کو تبدیل کیا جائے۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ انتخابی عمل کے 6 تا 11 مراحل میں تبدیلی کی جاتی ہے اور چھٹے مرحلہ کیلئے ریٹرننگ افسر کی جانب سے کاغذات نامزدگی کی منظوری/مسترد کرنے کے خلاف اپیل کرنے کی آخری تاریخ 10 اپریل 2023ء مقرر کی جاتی ہے۔ اسی طرح اپیلٹ ٹربیونل ساتویں مرحلہ میں 17 اپریل 2023ء تک اپیلوں پر فیصلہ کرے گا۔ انتخابی پروگرام کے 8ویں مرحلہ میں امیدواروں کی نظرثانی شدہ فہرستیں 18 اپریل 2023ء کو شائع ہوں گی۔ مزید برآں امیدوار 19 اپریل 2023ء تک کاغذات نامزدگی واپس لے سکتے ہیں اور 9ویں مرحلہ میں اسی دن امیدواروں کی حتمی فہرست شائع کی جائے گی۔ 20 اپریل 2023ء کو 10ویں مرحلہ پر امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کئے جائیں گے اور 14 مئی 2023ء کو پنجاب میں انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ مندرجہ بالا تبدیلیوں کے تناظر میں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے الیکشنز کے انعقاد کی تاریخ 30 اپریل 2023ء کی بجائے 14 مئی 2023ء مقرر کی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا ہے کہ عدالت کی جانب سے دوران سماعت پوچھے گئے متعدد سوالات کے جواب میں الیکشن کمیشن نے واضح مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر وفاق اور صوبوں میں ایگزیکٹو اتھارٹیز کی جانب سے آرٹیکل 220 کے تحت ضروری مدد اور معاونت فراہم کی جاتی ہے تو ای سی پی پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں عام انتخابات کرا سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت عدالت مزید حکم/ہدایات جاری کرتی ہے کہ وفاقی حکومت ہر صورت میں 10 اپریل 2023ء تک پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرے۔

ای سی پی فنڈز کی فراہمی کے حوالہ سے عدالت میں 11 اپریل 2023ء کو رپورٹ پیش کرے گا کہ فنڈز فراہم کر دیئے گئے ہیں اور وصول ہو چکے ہیں (مطلوبہ فنڈز کی مجموعی وصولی یا قسط کی وصولی کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے گا)۔ یہ رپورٹ بنچ کے ارکان کو چیمبرز میں پیش کی جائے گی۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اگر فنڈز فراہم نہیں کئے جاتے یا ان میں شارٹ فال ہے تو جو بھی صورتحال ہو گی تو عدالت متعلقہ حکام یا اداروں کو مناسب ہدایات/حکم جاری کرے گی۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ دوران سماعت عدالت کی توجہ زیرالتواء کیسز (SMC 1/2023) اور (CPNos Land 2/2023) کی جانب مبذول کروائی گئی جن کی سماعت اور فیصلہ دیا (یہ بنچ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سیّد منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل تھا) بنچ میں جسٹس سیّد منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلہ سے اختلاف کیا تھا۔

اسی طرح عدالت کی توجہ 27 مارچ 2023 کے دو معزز ججز کے تفصیلی فیصلوں کی جانب بھی کرائی گئی جو کہ اقلیتی فیصلے تھے۔ مزید کہا گیا کہ عدالت کے ججز چار، تین کی اکثریت سے بھی کیس کے حوالے سے فیصلہ دے چکے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ عدالت کے سامنے پیش کئے جانے والے نکات کی کوئی قانونی پوزیشن نہیں ہے۔ عدالت کی توجہ دوران سماعت سپریم کورٹ کے بنچ کے دو، ایک کی اکثریت سے 29 مارچ 2023 کے تین رکنی بنچ (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس شاہد وحید) کے فیصلہ کی جانب بھی مبذول کرائی گئی جو SMC 4/2022 کے کیس میں دیا گیا تھا جس میں جسٹس شاہد وحید نے فیصلہ سے اختلاف کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ مندرجہ بالا عدالتی فیصلہ میں دو ایک کی اکثریت سے دی جانے والی آبزرویشنز سے اس بنچ کے سماعت اور فیصلہ کرنے کے اختیار پر کوئی قانونی اثر نہیں ہے۔

سپریم کور ٹ نے کے پی کے اسمبلی کے عام انتخاب کے حوالہ سے اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت سے ریلیف مانگا گیا تاہم ایک سیاسی جماعت کی جانب سے انتخابی عمل کے حوالہ سے پیش کردہ موقف پر وکیل صاحب جو اس سیاسی جماعت کے وکیل تھے اور گورنر کے پی کے کی نمائندگی بھی کر رہے تھے، انہوں نے گورنر کی پیروی کرنے سے معذرت کر لی۔ اس طرح عدالت میں گورنر خیبر پختونخوا کی نمائندگی نہ ہو سکی۔ اس طرح کی صورتحال کے تناظر میں کے پی کے میں انتخاب کے حوالہ سے درخواست گزار متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دیا ہے ،شارٹ آرڈر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔