30.5 C
Islamabad
جمعرات, مئی 15, 2025
ہومقومی خبریںسپریم کورٹ کے آئینی بنچ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ...

سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلوں اور سنیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت

- Advertisement -

اسلام آباد۔14مئی (اے پی پی):اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلوں اور سنیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی آئینی بنچ نے کی ۔جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ کے دیگر جج صاحبان میں جسٹس نعیم اختر افغان ، جسٹس شاہد بلال حسن ، جسٹس صلاح الدین پنھور اور جسٹس شکیل احمد شامل تھے ۔ دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایکٹ کے مطابق ججز مختلف صوبوں سے تعینات ہو سکتے ہیں، قانون میں تبادلوں کا نہیں بلکہ صوبوں سے تعیناتی کا ذکر ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے منیر اے ملک سے کہا کہ چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں صدر، وزیر اعظم، وزارت قانون کا ذکر تک نہیں۔ ججزکے خط میں کسی جج کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے منیر اے ملک سے کہا کہ میرے بطور جج تیرہ سالہ کیریئر میں کسی بھی طرح میرے کام میں مداخلت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کا تبادلہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے، کیا ماضی میں ٹرانسفر ہو کر آنے والے جج اسلام آباد ہائی کورٹ کا حلف لیتے رہے ہیں؟ وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سے پہلے کسی جج کا ٹرانسفر نہیں ہوا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں جتنے بھی ججز ٹرانسفر ہو کر آئے وہ آرٹیکل 193 کے تحت آئے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور تعیناتی سے متعلق تین آئینی شقیں ہیں، آرٹیکل 193، 197 اور 200 ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر کا ذکر کرتے ہیں، صرف ایک آرٹیکل 194 حلف کی بات کرتا ہے، قانون بنانے والوں نے اس کے علاوہ کہیں بھی حلف کی بات نہیں کی

- Advertisement -

آرٹیکل 194 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز چیف جسٹس اسلام آباد سے حلف اٹھائیں گے۔ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ بالکل میں یہ ہی بات کہنا چاہ رہا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے فرض کریں کہ ایک جج اپنی ہائیکورٹ میں سینئر ترین جج ہے، وہ کسی ایسی ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہو کر جاتا ہے جہاں پہلے سے 20 ججز موجود ہیں، ایسی صورتحال میں تو اپنی ہائیکورٹ کا سینئر ترین جج دوسری ہائیکورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں سب سے نیچے آئے گا؟ منیر اے ملک نے موقف اپنایا ایسے جج کو چاہیے کہ وہ آئے ہی نہ۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آپ کے دلائل سے تو لگتا ہے ٹرانسفر فریش تعیناتی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کیا تینوں صوبائی ہائیکورٹس سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے ججز کی آسامیاں خالی ہو چکی ہیں یا ابھی برقرار ہیں؟

اگر پوزیشنز خالی نہیں ہیں تو کیا دونوں ہائیکورٹس میں الگ الگ سینیارٹی لسٹیں برقرار رہیں گی؟ منیر اے ملک نے جواب دیا بھارتی آئین کے مطابق تو جب ایک جج ٹرانسفر ہوتا ہے تو اس کی نشست خالی ہو جاتی ہے۔ بعدازاں عدالت نے ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس کی سماعت جمعرات 15مئی تک ملتوی کر دی۔

 

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=596981

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں