سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بنچ کی فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت

78

اسلام آباد۔29جنوری (اے پی پی):سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت بدھ کو بھی جاری رکھی۔بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی جبکہ بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے 9 مئی کے حوالے سے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کا ریکارڈ پیش کیا۔ عدالت نے 9 مئی کے علاوہ دیگر ٹرائلز کا ریکارڈ طلب کیا اور جانچ پڑتال کے بعد ریکارڈ کی کاپیاں واپس کر دیں اور مختلف استفسارات کئے ۔

خواجہ حارث نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے ہوتے ہیں، عوام کو کارروائی دیکھنے کی اجازت ہے، منصفانہ ٹرائلز کے تمام تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔کارروائی شروع ہوتے ہی جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ الزام عائد کرنے سے پہلے تفتیش کیسے ہوتی ہے؟ جسٹس مظہر نے مزید کہا کہ الزامات عائد کرنے سے پہلے تفتیش ہونی چاہئے۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ٹرائل اور فیئر ٹرائل کے بارے میں قانون واضح ہے، ملزم اگر استطاعت نہیں رکھتا تو اس کو سرکاری اخراجات پر دفاعی وکیل فراہم کیا جاتا ہے ، آرمی ایکٹ اور رولز ملزمان کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔وکیل نے عدالت کے روبرو مقدمے کا ریکارڈ سات لفافوں میں پیش کیا جس میں بنچ کے ہر رکن کی کاپیاں موجود تھیں اور کہا کہ ملزمان سے ٹرائل سے قبل پوچھا گیا کہ کیا انہیں پریذائیڈنگ آفس پر اعتراض ہے، ان میں سے کسی نے بھی صدارت کرنے والے افسر پر اعتراض نہیں کیا، اگر کوئی ملزم اعتراف جرم کرتا ہے تو اسلامی قانون کے تحت رعایت دی جاتی ہے۔ عدالت نے کارروائی جمعرات تک کے لئے ملتوی کر دی ۔