26 C
Islamabad
پیر, اپریل 21, 2025
ہومقومی خبریںسپیکر کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے جو حکومت ، اتحادی جماعتوں...

سپیکر کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے جو حکومت ، اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کو مساوی وقت دینے، ثالثی کا کردار ادا کرنے کا بااعتماد فورم ہوتا ہے ، سپیکر قومی اسمبلی

- Advertisement -

اسلام آباد۔20دسمبر (اے پی پی):قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق اور چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے قانون ساز اداروں کی بالادستی اور انھیں مضبوط بنانے کے عزم اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپیکر کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے جو حکومت ، اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کو مساوی وقت دینے، تنازعات کی صورت میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا بااعتماد فورم ہوتا ہے ،

پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے اندر سے گرفتاریوں پر ذمہ داروں کے خلاف سزائوں کا تعین کیا جائے گا ، تمام سپیکرز کی خواہش ہے کہ بامعنی بات چیت ،دوطرفہ اعتماد سازی ہو اور اختلاف رائے کی عزت کی جائے، نئی نسل کو پارلیمان سے ہم آہنگ کرنے کے لئے پارلیمان کی طرز پر صوبائی اسمبلیاں بھی اجلاس کی کارروائی دیکھنے اور انٹرشپ کی سہولت فراہم کر یں گی ، 18ویں ترمیم ، سے ملک میں استحکام آیا ہے ،چھوٹے صوبوں کی احساس محرومی دور ہوئی ہے، ان کے ایشوز کو حل کرنے میں مدد ملی ہے ، 18 ویں ترمیم کے مطابق صوبوں کو اختیارات دیدیئے جانے چاہیں تھے ۔ وہ جمعہ کو دو رزہ 18 ویں سپیکر کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔

- Advertisement -

سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ 18ویں سپیکر کانفرنس میں چیئرمین سینٹ اور تمام سپیکرز کے شکر گذار ہیں انہوں نے نہ صرف وقت دیا بلکہ سیر حاصل گفتگو ہوئی ،ہم سب کی سوچ ایک ہے کہ پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی ہو ، ہم سب کا متفقہ اعلامیہ جاری ہوچکا ہے ۔ہم نے عزم کیا پارلیمان کی بالادستی اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے تمام صوبائی اسمبلیاں اپنا کردار ادا کریں گے ۔ہم سب کی خواہش ہے کہ بامعنی بات چیت ،دوطرفہ اعتماد سازی ہو اور اختلاف رائے کی عزت کی جائے ۔ انہوں نے کا کہ حکومت عددی نمبرز کی بجائے اپوزیشن کو ملا کر قانون سازی کی طرف جائے ، ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے ،موسیماتی تبدیلی پر توجہ دیں اورسپیکرز غیر جانبدار ہو کر سہولت کار کا کردار ادا کریں ۔انہوں نے کہا کہ تجاویزیا رائے کی بجائے سب کو اکٹھا بیٹھا کر ملک کے مفادات کی خاطر پاکستان کی ذمہ داری پوری کرنی چاہیئے ، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمانی اقدار ، ضابطہ اخلاق ہو جس میں ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے دوسروں کو ساتھ لیکر چلیں ۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی ،سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں آئین کا آرٹیکل نائن اے کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پارلیمان کے زریعے اس معاملے پر بحث کی جائے تا کہ بہتر سے بہتر تجاویز آئیں ۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پر ہم نے بات کی ، قانون سازی کرتے ہوئے پالیسی اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ صوبے اور مرکز کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپس میں روابط ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رولز اینڈ پروسیجر ایک جیسے ہیں باقی صوبائی اسمبلیوں کو بھی ایسے ہی رولز اینڈ پروسیجرز بنانے ہونگے ۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ایوان میں پارٹی کے چیف وہیپ کا اہم کردار ہے ، دنیا کے بہترین تجربات کے مطابق ہم اس میں بہتری لانے کے خواہاں ہیں کیونکہ پارٹی چیف وہیپ ایوان میں اپنی پارٹی کی حاضری ، قانون سازی ، ترامیم سمیت دیگر امور پر کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی ایسی کمیٹی ہے جو عمل درآمد بلخصوص آڈٹ پیرا پر وصولیوں پر کام کرتی ہے، قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اربوں روپے کی وصولیاں کرائیں ہیں ۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ یہ اعلامیہ صرف دستاویز پر دستخط کی حد تک نہیں رہے گا بلکہ اس پر عمل درآمد کو نہ صرف مانیٹر کیا جائے گا بلکہ تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا ۔ایک سوال کے جواب میں سپیکر نے کہا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھرتیوں کا نظام بھی شفاف کر دیا گیا ہے ،

ہم نے قومی اسمبلی میں ڈیپوٹیشن کوبھی ختم کر دیا ہے اور میرٹ پر بھرتیوں کا ٹاسک فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو دیدیا ہے ۔میرٹ بیسڈ تقرریاں ہونگی اور مجموعی طور پر میں نے سپیکر کے اختیارات کو کم کیا ہے ۔چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے 18ویں سپیکرز کانفرنس اعلامیہ کی مکمل تائید کرتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم ، سے ملک میں استحکام آیا ہے ،چھوٹے صوبوں کی احساس محرومی دور ہوئی ہے اور صوبوں کے ایشوز کو حل کرنے میں مدد ملی ہے ، 18 ویں ترمیم کے مطابق صوبوں کو اختیارات دیدیئے جاتے تو سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ ایوان بالا میں ہم نے ہم نے ڈیولوشن کمیٹی بنا دی ہے تا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد پیش آنے والی پیچیدگیوں کو دور کیا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جو اقدام کیے ہیں اس کامقصد سیاسی استحکام ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو اس سے معاشی استحکام آئے گا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ہمیں میثاق معیشت لانا ہوگا ۔ وہ ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں جہاں سیاسی استحکام نہیں ہے لیکن معاشی استحکام ہے ،مصنوعی ذہانت سے بھی استفادہ حاصل کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ گفت و شنید نہیں کریں گے تو معاملات حل نہیں ہونگے ۔ اختلاف رائے اس وقت تک جمہوری رہتی ہے جب تک ملک کو نقصان نہ پہنچائے ۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=537797

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں