سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت ذیلی کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کا اجلاس

143

اسلام آباد۔15ستمبر (اے پی پی):سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت ذیلی کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کا اجلاس جمعہ کو یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی اراکین نے سینیٹ کمیٹی کی متفقہ سفارشات کے خلاف ہائی کورٹ سے حاصل کردہ حکم امتناع اور وزارت کی جانب سے پاک نرسنگ کونسل کے ڈپٹی رجسٹرار کی واپسی، نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اور کوآرڈینیشن کو محکمے سے ہٹانے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار کا عہدہ پر تقرری روک دی گئی ہے۔

کمیٹی نے تمام نرسنگ انسٹی ٹیوٹس اور ہسپتالوں کے ساتھ رجسٹرڈ افراد کی فہرست کے اپ گریڈ شدہ اعداد و شمار کی عدم فراہمی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس فراہمی میں تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ایک ادارہ کاغذی کام اور ریکارڈ کے بغیر کیسے چل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن نرسنگ کونسل کی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ سینیٹر جام مہتاب نے کہا کہ پالیسی کے مطابق محکمہ صحت کا ملازم نرسنگ کالج کا مالک نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے گزشتہ اجلاس میں جعلی ثابت ہونے والے انسٹی ٹیوٹس کی رجسٹریشن کے عمل کی تفصیلات طلب کیں۔ ان اداروں کی کارکردگی پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے یہ بحث کی گئی کہ اچانک معائنے پر فراہم کردہ فہرست میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ بلا اطلاع دورے تھے۔

ذیلی کمیٹی کی کنوینر سینیٹر روبینہ نے کہا کہ یہ اطلاع ملی ہے کہ ان معائنوں کو بعض افراد کے مطالبے پر میز کے نیچے نمٹایا گیا ہے۔کمیٹی نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کا صحت کا شعبہ کیسے کام کر رہا ہے اور کہا کہ فوری کارروائی اور نگرانی کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ غفلت ہم میں سے کسی کا بھی مقدر بن سکتی ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے نائب صدر نے کہا کہ ابھی تک اس خطرے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے تاہم جرم ثابت ہونے کی صورت میں موقع پر لائسنس منسوخ کرنے کی کارروائی کی جائے گی

۔ذیلی کمیٹی نے نرسنگ اداروں کے معیار کو بہتر بنانے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور نصاب میں تبدیلی کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نرسنگ کونسل اب ڈپلومہ پیش نہیں کرتی اور کہا گیا کہ ابتدائی طور پر نصاب کو پی ایم ڈی سی کی جانب سے ریگولیٹ کیا جاتا تھا لیکن جب سے یہ 4 سالہ آنرز ڈگری پروگرام میں واپس آیا ہے اب ایچ ای سی کی طرف سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ لہذا ایچ ای سی کو نئے نصاب اور نرسنگ انسٹی ٹیوٹس کے انفراسٹرکچر پر بریفنگ دینے کی دعوت دی جاتی ہے۔

کمیٹی نے بین الاقوامی سطح پر نرسنگ کے طریقوں کا بھی جائزہ لیا۔ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں تربیتی اداروں کا نصاب بھی زیادہ عملی اور ہنرمندانہ بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ نجی اور سرکاری سطح پر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے نرسنگ ہسپتال قائم کیے جائیں اور کہا کہ تربیت یافتہ نرسیں صحت کے شعبے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اجلاس میں سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی، سینیٹر جام مہتاب حسین ڈاہر، کامران رحمان خان، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت این ایچ ایس آر سی منیر احمد نے شرکت کی۔اس موقع پر این ایچ ایس آر سی کے نائب صدر شاہد حسین، سیکرٹری فوزیہ مشتاق اور دیگر متعلقہ محکموں کے نمائندگان بھی موجود تھے۔