اسلام آباد۔1ستمبر (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں پی آئی اے، ڈسکوز، جینکوز اور پی ایم ڈی سی کی نجکاری کے عمل کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے سے قبل توانائی کی فراہمی کے معاہدوں، قرضوں کی تنظیم نو اور منافع بخش ریاستی اثاثوں کے تحفظ کے بارے میں وضاحت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں نجکاری کے اہم اقدامات بشمول پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے)، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز)، جنریشن کمپنیوں (جینکوز) اور پاکستان منرلز ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) کی نجکاری پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ سینیٹرز ذیشان خانزادہ، عمر فاروق اور اسد قاسم نے اجلاس میں شرکت کی۔اجلاس میں گزشتہ اجلاس کی سفارشات کی تعمیل کی صورتحال، واحد خریدار ماڈل کو مرحلہ وار ختم کرنے کے اثرات اور سرکاری اداروں کی نجکاری میں تازہ ترین پیشرفت پر بھی غور کیا گیا ۔اجلاس میں پاور ڈویژن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نندی پور پاور پلانٹ اور گدو پاور پلانٹ نجکاری کی فہرست میں شامل ہیں اور نجکاری کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ نندی پور کے آٹھ اہم مسائل حل ہو چکے ہیں تاہم صرف گیس کی خرید و فروخت کے معاہدے سے متعلق حکومت یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ گیس کی سپلائی وقف کی جائے یا دستیاب ہونے پر ہی گیس کی فراہمی کا موجودہ انتظام جاری رکھا جائے۔گدو پاور پلانٹ کے بارے میں حکام نے کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ 9میں سے چار مسائل حل ہو چکے ہیں،باقی مسائل میں زمین کی منتقلی شامل ہے کیونکہ پلانٹ کی زمین اب بھی واپڈا کے تحت رجسٹرڈ ہے تاہم واپڈا نے پہلے ہی سے این او سی جاری کر دیا ہے اور منتقلی کا عمل جاری ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے نجکاری کے عمل کی کامیابی کے لئے توانائی کی فراہمی کے مسئلے کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ملک میں گیس کی دستیابی اہم مسئلہ ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب تک سرمایہ کار کو گیس کی فراہمی یقینی نہیں ہو گی تو بجلی کیسے پیدا ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گیس کی فراہمی کا طویل مدتی معاہدہ نجکاری کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے لیکن پاور ڈویژن کی تیاریاں ابھی تک نامکمل دکھائی دیتی ہیں۔ پاور ڈویژن کے حکام نے تصدیق کی کہ نندی پور کو ایل این جی سپلائی ملے گی جبکہ گدو کو کندھ کوٹ فیلڈ سے گیس فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بجلی کی خرید و فروخت کی مارکیٹ کو کھولنے کے لئے ایک خصوصی مارکیٹ آپریٹر کمپنی قائم کی گئی ہے جس کے پہلے مرحلے میں 3 ہزار میگاواٹ بجلی کی تجارت متوقع ہے۔ڈسکوز کے حوالہ سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ تین کمپنیاں اس وقت نجکاری کی فہرست میں شامل ہیں۔ سیکرٹری نجکاری نے بریفنگ کے دوران کہا کہ ڈسکوز کی نجکاری کے لئے مصروف فنانشل ایڈوائزر نے اہم کام مکمل کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا ہے کہ حکومت اب کاروبار نہیں کرے گی۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے حکمت عملی پر سوال اٹھاتے ہوئے استفسار کیا کہ حکومت پہلے مرحلے میں منافع بخش کمپنیوں کو کیوں فروخت کر رہی ہے؟۔ سیکرٹری نجکاری نے جواب دیا کہ سرمایہ کار قدرتی طور پر منافع بخش کمپنیوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سرکاری اداروں کو مفت دیا جائے تو پھر بھی یہ درست فیصلہ ہو گا کیونکہ ادارے مستقبل میں منافع بخش نہیں رہ سکتے۔ پی آئی اے کے حوالہ سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نجکاری نومبر 2025 تک متوقع ہے۔
سیکرٹری نجکاری نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری میں چار کمپنیاں حصہ لے رہی ہیں اور انہیں پی آئی اے کو چلانے کے لئے ایئر لائنز کے ساتھ کنسورشیم بنانے کی ضرورت ہو گی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ دو درخواست گزاروں کو معیار پر پورا نہ اترنے پر نااہل قرار دیا گیا۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے پی آئی اے کے 650 ارب روپے قرضہ پر تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئرمین افنان اللہ خان نے تجویز پیش کی کہ پی آئی اے کے دو ہوٹلز واجبات کو پورا کرنے کےلئے فروخت کئے جاسکتے ہیں۔ کمیٹی نے پی ایم ڈی سی کی کارکردگی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پی ایم ڈی سی کے سی ایف او نے ویلیو ایڈڈ نمک اور سوڈا ایش کی پیداوار میں نئی سرمایہ کاری کے ساتھ کوئلے اور نمک کی کان کنی میں اہم پیشرفت کے بارے میں اجلاس کو آگاہ کیا۔ سینیٹر عمر فاروق نے پی ایم ڈی سی کی نجکاری کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی سے بلوچستان کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے اور یہ منافع بخش ہے اور اس کی نجکاری نہیں ہونی چاہئے۔ کمیٹی کے چیئرمین افنان اللہ خان نے واضح کیا کہ آج کا ایجنڈا صرف کارپوریشن کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے، اس کی نجکاری کا فیصلہ کرنا نہیں۔ اجلاس کے اختتام پر کمیٹی نے نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے سے قبل توانائی کی فراہمی کے معاہدوں، قرضوں کی تنظیم نو اور منافع بخش ریاستی اثاثوں کے تحفظ کے بارے میں وضاحت کی ضرورت پر زور دیا۔