سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے،پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے،الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات کو بدعنوانی سے محفوظ اور شفاف بنائے، سپریم کورٹ

155
سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے،پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے،الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات کو بدعنوانی سے محفوظ اور شفاف بنائے، سپریم کورٹ
سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے،پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے،الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات کو بدعنوانی سے محفوظ اور شفاف بنائے، سپریم کورٹ

اسلام آباد۔1مارچ (اے پی پی):سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر محفوظ شدہ رائے سنا دی ہے ۔

پیر کو عدالت عظمی کی جانب سے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر 4 ایک کے تناسب سے محفوظ شدہ رائے سنائی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے طرف سے کہا گیا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے،پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے،

الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات کو بدعنوانی سے محفوظ اور شفاف بنائے،شفاف الیکشن الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ عدالتی رائے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ کی رازداری تاحیات نہیں ہوسکتی، سپریم کورٹ 1967 ء میں نیاز احمد کیس میں فیصلہ بھی دے چکی ہے کہ ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا،بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں۔عدالتی رائے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں،

الیکشن کمیشن آرٹیکل 218 کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے،الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے،الیکشن کمیشن کا کام کرپٹ پریکٹس روکنا ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے عدالت عظمی میں ریفرنس بھیجا،

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی تھی ،بینچ میں شامل عدالت عظمی کے چار معزز ججز صاحبان نے ریفرنس قابل جواب قرار دیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا۔ واضح رہے کہمذکورہ بالا معاملہ پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت عظمی نے گزشتہ جمعہ کو اپنی رائے محفوظ کی تھی