سینیٹ نے آئندہ مالی سال 2025-26ء کے فنانس بل کیلئے سفارشات کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی

3
سینیٹ کی ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس، سینیٹ کا اجلاس 20 جون تک جاری رہے گا

اسلام آباد۔21جون (اے پی پی):سینیٹ نے آئندہ مالی سال 2025-26ء کے فنانس بل کیلئے سفارشات کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی ہے۔ سینیٹ سے 204 سفارشات قومی اسمبلی کو بھجوا دی گئی ہیں۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ 6 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہئے۔ سولر پینلز پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ واپس لیا جانا چاہئے۔ ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے اور مزید ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جانے چاہئیں۔ قومی اداروں کی نجکاری فوری طور پر روک دینی چاہئے۔

زرعی شعبے کی ترقی کیلئے چھوٹے کاشتکاروں کو مناسب سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ ناکافی ہے، تنخواہوں میں 50 فیصد تک اضافہ ہونا چاہئے۔ کنسٹرکشن کنٹریکٹرز کو ودہولڈنگ ایجنٹس شمار نہ کیا جائے، سٹیل کے شعبے کو ٹیرف ریفارمز سکیم سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ جوس انڈسٹری پر عائد کی جانے والی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 15 فیصد تک کمی ہونی چاہئے۔

ہومیو پیتھک ادویات پر سیلز ٹیکس18 فیصد کی بجائے ایک فیصد ہونا چاہئے، کم از کم اجرت 37 ہزار روپے کی بجائے 50 ہزار روپے کی جانی چاہئے، 850 سی سی اور اس کے نیچے کی گاڑیوں پر مجوزہ ٹیکس 18 فیصد کی بجائے 10 فیصد عائد کیا جانا چاہئے۔ خصوصی ورکرز کو ماہانہ کنوئنس الائونس 6 ہزار کی بجائے 10 ہزار دیا جانا چاہئے۔

جی ایس ٹی کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ٹیکس جیسے بالواسطہ ٹیکسوں میں 50 فیصد کمی کر کے بلواسطہ ٹیکسوں کی طرف جانا چاہئے۔ مقامی اور بین الاقوامی جاب مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ملک بھر میں فنی اور پیشہ وارانہ تربیت کے پروگرام شروع کئے جانے چاہئیں۔ پچاس لاکھ سے زائد آمدنی پر سالانہ کم از کم 10 فیصد زرعی ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔ 200 یونٹ تک کے بجلی بلوں پر سرکلر ڈیٹ سرچارج عائد نہ کیا جائے۔

کارپوریشنز، رئیل اسٹیٹ اور بڑے زمینداروں سمیت اشرافیہ کو دیئے جانے والے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کیا جائے۔ حکومت آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹس کو موخر کرے اور ان میں کمی کیلئے مذاکرات کئے جائیں۔ آٹے، دالوں اور ادویات جیسی تمام ضروری اشیاء پر جی ایس ٹی ختم ہونا چاہئے۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کیلئے بڑے زمینداروں، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور سٹاک مارکیٹ کے بروکرز پر ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد کی بجائے 20 فیصد اضافہ کیا جانا چاہئے۔

بلوچستان میں جدید ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے خصوصی گرانٹس کی منظوری دی جانی چاہئے۔ ای او بی آئی کی پنشن 11500 روپے سے بڑھا کر 23000 ہزار روپے ماہانہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ فیملی پنشن تاحیات ہونی چاہئے، تمام سرکاری ملازمین کے میڈیکل الائونس میں 200 فیصد تک اضافہ ہونا چاہئے۔ رولز کے مطابق استعمال شدہ اور پرانی گاڑیوں کی درآمد پر سہولت دی جانی چاہئے۔ مقامی طور پر تیار ہونے والے درآمدی ٹریکٹرز پر سیلز ٹیکس کی شرح 5 فیصد تک کم کی جائے تاکہ کاشتکار باآسانی ٹریکٹرز خرید سکیں۔

تنخواہ پر بنیادی استثنیٰ 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے تک ہونا چاہئے اور انکم ٹیکس 12 لاکھ سے اوپر آمدنی پر وصول کیا جانا چاہئے۔ غیر متوقع اخراجات سے نمٹنے کیلئے ایمرجنسی فنڈ کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے۔ ہائیر ایجوکیشن ڈویژن کے اداروں کیلئے فنڈز کی تخصیص 4 ہزار 870 ملین روپے تک بحال کی جانی چاہئے۔ پی ڈبلیو ڈی کی سکیمیں دیگر تین صوبوں کی طرح حکومت سندھ کو بھی منتقل ہونی چاہئیں۔

سرکاری ملازمین کے تمام ایڈہاک الائونسز بنیادی تنخواہ میں ضم ہونے چاہئیں۔ ڈیموں کی تعمیر کیلئے مختص فنڈز میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ ان کو بروقت مکمل کیا جا سکے۔ کلائمیٹ ایڈپشن کیلئے ترقیاتی فنڈز میں 10 فیصد تک اضافہ ہونا چاہئے۔ رئیل اسٹیٹ ٹرانزیکشن پر کیپٹل گین ٹیکس بحال کیا جانا چاہئے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے سفارشات پر کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا اور یہ سفارشات فنانس بل کا حصہ بنانے کیلئے قومی اسمبلی کو بھجوا دی گئیں۔ سینیٹ کے ارکان کی مجوزہ ترقیاتی سکیمیں بھی 2025-26ء کے پی ایس ڈی پی کا حصہ بنائی جائیں۔