سی پیک کی تکمیل سے سنکیانگ میں ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا ”بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو” نے سنکیانگ میں روشن مستقبل کی امید پیدا کر دی ہے ، مقررین کا ویبینار سے خطاب

67
CPEC
CPEC

اسلام آباد ۔ 21 اگست (اے پی پی) چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تکمیل سے سنکیانگ میں ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ ”بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو” نے سنکیانگ میں روشن مستقبل کی امید پیدا کر دی ہے کیونکہ وہ چین کو افغانستان، ہندوستان، قزاخستان، کرغزستان، منگولیا، پاکستان، روس اور تاجکستان سمیت 8 ممالک سے جوڑتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاک چائنہ سینٹر فار فرینڈ شپ اسلام آبادکے تعاون سے چین کی حکومت کی مؤثر پالیسی کی وجہ سے سنکیانگ میں معاشی ترقی کو اجاگر کرنے کے لئے منعقد ہونے والے ویبینار میں شریک شرکاء نے کیا۔ اس ویبینار میں امریکہ، فرانس، نیوزی لینڈ اور چین سے بھی ماہرین نے شرکت کی۔ پاکستان کے سابق سفیر و کالم نگار جاوید حفیظ نے سنکیانگ میں معاشی نمو کو فروغ دینے کے لئے چینی پالیسی کی کامیابی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چین کا مغربی صوبہ سنکیانگ، صحراؤں اور پہاڑوں پر مشتمل وسیع و عریض خطہ ہے جوقدرتی وسائل سے مالا مال ہے، سنکیانگ آج چین کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے علاقوں میں سے ایک ہے جہاں توانائی کا شعبہ میں ترقی ہورہی ہے۔ خطے میں بڑی صنعتیں قائم کی جارہی ہیں اورسی پیک اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ سنکیانگ میں عدم استحکام کے بارے میں غیر ملکی میڈیا کی طرف سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کے برخلاف ، انہوں نے کہا کہ چینی حکومت غربت کے خاتمہ انتہا پسندی پر قابو پانے اور اس خطے کو ترقیاتی سرگرمیوں کا مرکز بنانے میں کامیاب رہی ہے۔جاوید حفیظ نے کہا کہ مرکزی حکومت نے سنکیانگ میں گذشتہ کئی سالوں کے دوران 2.35 ٹریلین یوآن کی سرمایہ کاری کی ہے۔ 2014ء اور 2018ء کے درمیان ، صوبائی آبادی کا تقریباً 10 فیصد غربت سے نکال دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال سنکیانگ کی رورل جی ڈی پی میں 9.7 فیصد اضافہ ہوا ہے، آج سنکیانگ میں کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت خطے میں بے روزگاری کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ سابق سفیر کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کے صحت کے اشارے نے خطے میں 72 سال کی متوقع عمر ظاہر کی ہے ،جو اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ ‘بیجنگ سنکیانگ کے لوگوں کی پرواہ کرتا ہے۔انہوں نے سنکیانگ میں مربوط کیمپوں کی موجودگی کے بارے میں حوصلہ افزائی کرنے والے حلقوں کے پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس خطے میں ایسے کیمپ ہیں جو صرف پیشہ ورانہ تربیت اور زبان کے کورس فراہم کرتے ہیں’۔پاک چائنہ سینٹر فار فرینڈ شپ کے صدر سلطان محمود حالی نے کہا کہ چین کے دشمنوں کی جانب سے جعلی خبریں پھیلائی گئی ہیںجو سنکیانگ کی زمینی صورتحال کی نفی کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین نے متحرک سرمایہ کاری کی پالیسی کے ذریعے چین کے مغربی صوبوں کے مابین عدم اعتماد کو کم کرنے کے لئے 1999ء میں ”گوئنگ ویسٹ” پالیسی اپنائی جس کا مقصد صنعتی پیداوار کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دینا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1999ء کے بعد اس پالیسی کی متعدد مرتبہ تجدید کی گئی۔ حالی نے کہا کہ سنکیانگ میں 2010ء میں ایک ترقیاتی منصوبہ تیار کیا گیا تھا تاکہ کوئلہ، سونا ، تیل اور یورینیم جیسے خام مال کے علاوہ زراعت اور سیاحت کے ساتھ ساتھ حقیقی معاشی قوت میں تبدیل کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ چینی صدرشی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے آغاز کے ساتھ ہی اس پالیسی کو آگے بڑھایا جس سے سنکیانگ صوبے کو ترقی ملی ہے۔ ماہر معاشیات پروفیسر انجینئر ضمیر احمد اعوان نے کہا کہ چینی حکومت نے ترقی کے انوکھے ماڈل کو اپناتے ہوئے 19 دیگر صوبوں سے سنکیانگ کی ترقی کے لئے کچھ رقم مختص کرنے کو کہا۔ بیجنگ، شنگھائی، گوانگ ڈونگ، ژی جیانگ اور لیاؤننگ سمیت مختلف صوبوں نے سنکیانگ میں زراعت، صنعت، ٹیکنالوجی ، تعلیم اور صحت کے شعبہ کو ترقی دینے کے لئے بھرپور مدد دی۔ ویبنار میں فرانس کے ماہنامہ میگزین نویلے سولیڈیرٹی کی چیف ایڈیٹر کرسٹینا بیری، نیوزی لینڈ چائنہ فرینڈ شپ سوسائٹی کے صدر ڈیو برومویچ، ویکلی میگزین ایگزیکٹو انٹیلی جنس ریویو کے واشنگٹن کے بیوروچیف ولیم جونز اور چائنیز گوانگ منگ ڈیلی کے چیف جرنلسٹ پروفیسر ژائو رانگ نے بھی شرکت کی ۔ اس موقع پر انہوں نے سنکیانگ میں انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے بارے میں غیر ملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے اس حقیقت کی تائید کی کہ یہ خطہ معاشی ترقی اور خوشحالی کی جانب بڑھ رہا ہے۔