اقوام متحدہ۔24اکتوبر (اے پی پی):اقوام متحدہ کے امدادی ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین (یو این آر ڈبلیو اے)نے شمالی غزہ میں فوری جنگ بندی کی دردمندانہ اپیل کرتے ہو ئے کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے گزشتہ تین ہفتوں سے بغیر کسی وقفے کے جاری بمباری کے باعث علاقے میں ہرطرف لاشیں بکھری پڑی ہیں ، امدادی کارروائیاں ناممکن ہو چکیں اور جو لوگ زندہ ہیں ان کے پاس سوائے موت کے انتظار کے کوئی آپشن باقی نہیں بچا۔
یو این آر ڈبلیو اے کےکمشنر جنرل فلپ لازارینی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ مسلسل اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے شمالی غزہ کے مکینوں کو خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی فراہمی ناممکن ہو چکی ہے، وہاں سڑکوں پر اور ملبے کے نیچے لاشیں ہی لاشیں ہیں اور ان کی تدفین اور ز ندہ بچ جانے والوں کو امداد کی فراہمی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے،وہاں موجود لوگ صرف موت کا انتظار کر رہے ہیں، وہ بے یار و مددگار ، ناامید اور خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور ہر گزرتے لمحے موت کے خوف میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے کہا کہ شمالی غزہ میں اسرائیل کی طرف سے یو این آر ڈبلیو اے(انروا) کی عمارتوں کو حملوں کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے وہاں بے گھر، زخمی اور بے یارو مددگار لوگو ں کی مدد ناممکن ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں غزہ میں اپنے عملے کی جانب سے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہوں جو چاہے چند گھنٹوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو تاکہ ان خاندانوں کے لیے محفوظ انسانی راستے کو ممکن بنایا جا سکے جو علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جانا چاہتے ہیں، یہ ان شہریوں کی جان بچانے کے لئے کم از کم اپیل ہے جن کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ۔اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کا اندازہ ہے کہ شمالی غزہ کی گورنری سے غزہ شہر تک 60 ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔شمالی غزہ کے اندر، تقریباً چار ہزار افراد جبالیہ سے بیت حنون اور بیت لاہیا کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ دیگر غزہ کے اندر ہی بے گھر ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے دفتر او سی ایچ اے (اوچا) کا کہنا ہے کہ جبالیہ کے علاقے فلوجہ میں لوگ پانچ دنوں سے اسرائیلی حملوں میں تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔غزہ میں موجود او چا کی گلوریا لازک نے بتایا کہ ملبے تلے دبے ان افراد کی مدد کے لئے ہماری درخواست اسرائیلی حکام نے بار بار مسترد کر دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق ملبے تلے دبے افراد کی تعداد 40 سے زیادہ ہے اور ان کا تعلق تین خاندانوں سے ہے لیکن ہمیں کوئی اندازہ نہیں کہ اسرائیل کی طرف سے ان لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت ملنے تک ان میں سے کتنے زندہ بچ سکیں گے۔ دریں اثنا، اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی ٹور وینس لینڈ نے غزہ میں اقوام متحدہ کے عملے اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)کے ارکان کے ساتھ ملاقاتیں کیں جنہوں نے انہیں پورے علاقے خاص طور پر شمال میں تشویشناک سکیورٹی اور انسانی صورتحال بارے بتایا۔
ٹور وینس لینڈ نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کو درپیش چیلنجز بشمول بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیاں بہت زیادہ ہیں جو خوراک، طبی سامان اور تحفظ کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شمالی غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل میں نمایاں اضافہ اور سکیورٹی میں بہتری کی فوری ضرورت ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے فوری جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی کے مطالبے کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں جاری جنگ کا آخری حل سیاسی ہی ہو سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روس ایڈہانوم گیبریسس نے بھی شمالی غزہ کی صورت حال کو خوفناک قرار دیتے ہوئے یہاں فوری جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شمالی غزہ میں طبی مراکز پر اسرائیلی حملے جاری ہیں اور ہسپتالوں میں سپلائی اور ایندھن کی کمی ہے جس سے عالمی ادارہ صحت کے عملے کو امدادی سرگرمیوں میں مواصلاتی چیلنجز اور دیگر وجوہات پر شدید مشکلات کاسامنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ شمال میں اس کا کوئی بھی میڈیکل پوائنٹ کام نہیں کر رہا ہے اور ان کے عملے کو امدادی سرگرمیوں کے لئے فوری طور پر طبی سامان کی ضرورت ہے۔