کراچی۔ 22 جون (اے پی پی):میئر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ماضی میں کسی میئر نے ریونیو کلیکشن کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی،کے ایم سی میں آخری بار 2008میں زمینوں کی نیلامی ہوئی تھی، ادارے کی آمدنی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اپنے اثاثوں کو کیسے استعمال کرتے ہیں،شہر کی تنزلی اس لئے ہوئی کہ ہم نے اپنے اداروں کو مستحکم کرنے کے بجائے غیرضروری بھرتیاں کیں،بولٹن مارکیٹ میں دس منزلہ پارکنگ پلازہ کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جہاں ڈھائی سو گاڑیاں پارک کرنے کی گنجائش ہے، کراچی میں ٹریفک میں مسائل کے حل کرنے کے لئے 13پروجیکٹس منظور کرائے ہیں،ان پروجیکٹس کی تکمیل سے شہریوں کو اندرون شہر آمدورفت میں سہولت ملے گی اور سفری دورانیہ کم ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز صدر دفتر بلدیہ عظمی کراچی میں مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات سے تعلق رکھنے والے بزنس رپورٹرز اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جس کے دوران میئر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب سے شہر کے مختلف مسائل کے حوالے سے سوالات کئے گئے اور ان مسائل کے حل کے لئے مستقبل کے اقدامات کے متعلق گفت و شنید کی گئی۔میئر کراچی نے کہا کہ 2001میں متعارف کرائے جانے والے سٹی حکومت کے نظام کا حوالہ دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اگرچہ سٹی ناظم پاور فل تھا مگر سٹی حکومت وفاقی اور صوبائی پیکیج کی محتاج تھی اور ادارے کی اپنی آمدنی کے ذرائع کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، اس وقت شہری اداروں کو یکجا کرکے سٹی حکومت بنا دی گئی تھی مگر آج ان شہری اداروں کو یکجا کرنے سے شہری مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید پیچیدگیاں جنم لیں گی، کے ایم سی کے ذمے اس وقت ساڑھے چھ ارب کا قرضہ ہے جبکہ کے ڈی اے کے قرض کی مالیت کئی ارب ہے یہی حال دیگر اداروں کا ہے لہذا ہر ادارے کو انفرادی طور پر توجہ دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کے ایم سی کا چارج سنبھالنے کے بعد شہر کے وسیع تر مفاد میں اس کے اثاثوں کے بہتر استعمال کو یقینی بنایا اور اثاثوں کے ریکارڈ اور ریکوری میں شفافیت لائے، کے ایم سی کی نو ہزار دکانوں سے 180 ملین کرایہ آتا تھا ہمارا ٹارگٹ سوا تین سو ملین ہے اس کے علاوہ 263 ہٹس ہاکس بے پر واقع ہیں جہاں سے 16ہزار روپے سالانہ کرایہ ملتا تھا، ہم نے اسے بڑھا کر 3 لاکھ 60 ہزار سالانہ کردیا ہے، ایم اے جناح روڈ پر بے ہنگم پارکنگ کے خاتمے کے لئے قرب و جوار میں پارکنگ کی جگہ تلاش کی تو پتہ چلا کہ بولٹن مارکیٹ میں ہماری ایک بلڈنگ اس مقصد کے لئے موجود ہے جس پر 1976 میں کام شروع ہوا تھا، یہاں 200دکانیں اور 50آفس بھی موجود ہیں،
اس کے اسٹرکچر کو چیک کرکے دس منزلہ عمارت تعمیر کی جائے گی جہاں پارکنگ کے علاوہ دفاتر بھی ہوں گے، عدالت میں اس بلڈنگ کا کرایہ 7 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع ہے جو کے ایم سی کو ملنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی کی کمی کا مسئلہ حقیقی ہے،1200 ملین گیلن یومیہ ضرورت ہے جبکہ صرف550 ملین گیلن پانی شہر کو فراہم ہوتا ہے، پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 12 ارب روپے کا پروجیکٹ منظور کرایا ہے،منصوبے کے تحت حب ڈیم سے موجودہ کینال کے ساتھ ایک نئی کینال ڈالی جائے گی،بارہ مہینے میں یہ پروجیکٹ مکمل ہوگا، اس کے علاوہ ابراہیم حیدری میں پانچ لاکھ گیلن پانی کا ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگا رہے ہیں، واٹر کارپوریشن میں ہدف کے مطابق 3 ارب روپے کی ریکوری حاصل نہیں کرپائے ہیں لہذا پانی کا استعمال چیک کرنے کے لئے ہم نے ساتوں ہائیڈرینٹس پر میٹر لگا دیئے ہیں،شہر میں اندازا پانچ ہزار واٹر ٹینکرز چلتے ہیں جن میں سے تین ہزار دو سو واٹر کارپوریشن سے رجسٹرڈ ہیں،سب سوائل پانی کے استعمال کے لئے ہم نے ریگولیشن منظور کرائی ہے،31 جولائی کے بعد بغیر میٹر کے کسی فیکٹری میں سب سوائل پانی استعمال نہیں ہوسکے گا،اس اقدام سے واٹر کارپوریشن کی اس مد میں آمدنی پانچ کروڑ سے بڑھ کر ایک ارب تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک بلوں کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی کے کیس کا فیصلہ عدالت میں ہمارے حق میں کردیا ہے جہاں تک کے الیکٹرک کے ساتھ باہمی تنازعات کا سوال ہے سوائے ایک کے تمام معاملات باہمی طور پر حل کرلئے گئے ہیں، کے الیکٹرک ہماری زمین پر لگائے گئے اپنے کھمبوں کا کرایہ دینے پر آمادہ نہیں لہذا اس کا فیصلہ بھی عدالت ہی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے پر ہیوی ٹریفک چلنے سے کافی حد تک ٹریفک مسائل حل ہوں گے، لیاری ایکسپریس وے کو بھی ہیوی ٹریفک کے لئے استعمال ہونا چاہئے، ملیر ندی پر برج بنا رہے ہیں، 13 مزید پروجیکٹس منظور کرائے ہیں جن کا مقصد شہریوں کو آمدورفت میں سہولت فراہم کرنا ہے، اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں نے میئر کراچی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ شہر کے مسائل حل ہونے سے کافی حد تک لوگوں کو ریلیف ملے گا اور شہری اداروں پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا۔