
اسلام آباد۔15جولائی (اے پی پی):جوڈیشل کمیٹی آف پاکستان کے چیئرمین/چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ صحت اور تعلیم سے متعلق خواتین کے بنیادی حقوق کی پالیسیز موجود ہیں، خواتین کے حقوق کے حوالہ سے قانون سازی ہوچکی، اب مسئلہ قانون اور پالیسز کے نفاذ کا ہے، صحت، تعلیم اور خودمختاری خواتین کے بنیادی حقوق ہیں، ملک کی بہتری کیلئے خواتین کا بااختیار ہونا ضروری ہے، اعلیٰ تعلیم بنیادی حق نہیں لیکن اس کو بنیادی حقوق سے جوڑا جاسکتا ہے، خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے قوانین کی حمایت کرتے ہیں، کانفرنس کی سفارشات معاشر تی فلاح و بہبود کیلئے ہیں، خواتین کو اپنے بنیادی فیصلے کرنے کی آزادی ہونی چاہئے، ملازمت سمیت خواتین کو اپنے حوالہ سے فیصلہ سازی کا مکمل حق ہونا چاہئے۔
ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور قومی وزارت صحت کے اشتراک سے ”مستحکم پاکستان: آبادی اور وسائل کا تعین” کے موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس کے دوسرے روز اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئےکیا۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جیسا کہ یہاں ذکر کیا گیا کہ پالیسیز موجود ہیں ان کی ترجیحات کے تعین کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور سندھ کے صوبوں میں اچھی قانون سازی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس قانون کے ساتھ ساتھ پالیسیز بھی موجود ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے جو قدم اٹھانا چاہئے وہ یہ ہے کہ اس کانفرنس میں پیش کی گئی تجاویز اور آراء کے حوالہ سے متعلقہ حکومتوں سے رابطہ کریں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر قانون اور پالیسیز پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو ہمیں ہائی کورٹس سے رابطہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں قوانین نہیں بنا سکتیں اور ہی پالیسیز مرتب کرسکتی ہیں تاہم عدلیہ یہ اختیاررکھتی ہے کہ قانون اور پالیسیز پر عملداری کو یقینی بنانے کیلئے ہدایات جاری کرسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا تعلق ہائی کورٹ سے نہیں ہے تاہم میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہائی کورٹس کے ججز کیا محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضلعی عدلیہ سمیت ہم سب قانون کی معاونت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ پہلا قدم اٹھائیں اور اگر کوئی حکومت قانون یا پالیسی پر عمل درآمد میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے تو عدالتیں آپ کی معاونت کریں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ خواتین کو زندہ رہنے، صحت، تعلیم، روزگار سمیت دیگر کئی بنیادی حقوق آئین کے تحت حاصل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت اور روزگار وغیرہ اچھی زندگی گزارنے کے بنیادی حق سے مربوط ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بطور جج میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران قوانین اور حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کے حوالہ سے کانفرنس میں نئی راہیں متعین کی گئی ہیں، جن سے آبادی میں اضافہ کے انتظام کار کو ان تجاویز کی بنیاد پر عوام کے بہترین مفاد میں ہم معاشرہ کو حقیقی معنوں میں ایک فلاحی معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانفرنس میں شریک ماہرین کی آراء اور تجاویز سے ہم سب کو سیکھنے کا بہت زیادہ موقع ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین نے ہمیں اپنے خیالات سے مستفید کیا جو قابل تحسین عمل ہے۔
انہوں نے کانفرنس میں عدلیہ اور بار کونسلز کے حکام سمیت عوامی سطح پر بھرپور شرکت کو بھی خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ کانفرنس میں شرکت کیلئے اختتام ہفتہ پر وقت نکالنا اور دور دراز سے سفر کرنا قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہمیں اپنی منزل پر پہنچنے میں مدد ملے گی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے معاشرہ میں خواتین کو بااختیار بنانے، تعلیم کے حصول، روزگار کے حوالہ سے فیصلہ کرنے کے ان کے بنیادی حق میں ان کی معاونت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ اور خاندان میں اجتماعی فیصلوں کی ضرورت ہے اور خاندانوں میں اچھے فیصلوں کیلئے فیصلوں میں خواتین کی شرکت بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہم ایک اچھا اور ترقی کرتا ہوا معاشرہ تشکیل دے سکیں گے جو معاشی طور پر بھی مضبوط معاشرہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی ”منزل” کے حصول کیلئے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔
قرآن پاک کی ایک آیت کا حوالہ دینے سے قبل انہوں نے کہا کہ آپ سوچتے ہوں گے کہ میں اپنی گفتگو کے آغاز یا اختتام پر آیات کا حوالہ دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہمیں راہنمائی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کی ایک خوبصورت آیت ہے جس کا مطلب اے ہمارے رب ہمیں ہماری منزل تک پہنچنے میں ہماری راہنمائی فرما اور ہمارے لئے بہترین منزل کا انتخاب فرما۔ انہوں نے کہا کہ انسان کیلئے ایک بہترین منزل فلاح و بہبود میں اس کا کردار ہوتا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اللہ پاک ہمیں مبارک منزل نصیب فرمائے گا۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم سب مبارک منزل پر پہنچیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کھلے دل اور خوشدلی سے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز میں نے اپنی گفتگو کا آغاز خوشحال اور خوش و خرم خاندان کی توقع سے کیا تھا۔
انہوں نے شرکاء کیلئے خوشیوں بھری بہترین زندگی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ قبل ازیں کانفرنس کے دوسرے روز ہفتہ کو مختلف سیشنز منعقد ہوئے جن میں ججز سمیت مختلف شعبہ جات کے ماہرین نے آبادی اور وسائل کے تعین اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے دوسرے روز بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججز، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور دیگر ہائی کورٹس، ضلعی عدلیہ کے حکام، بار کونسلز کے حکام، وکلا برادری اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں کانفرنس میں شرکت کی۔ کافرنس کے اختتام پر ملکی استحکام، آبادی اور وسائل کے تعین کے حوالہ سے سفارشات بھی مرتب کی گئیں۔