پشاور۔16دسمبر (اے پی پی):وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہاہے کہ حکومت کے وسائل محدود ہیں اور حکومتی آمدنی کا آدھا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلاجاتاہے جس کے باعث حکومت کیلئے ملک بھر کے ہر ہر علاقے میں جدید ہسپتالوں کا قیام سرکاری فنڈز سے ممکن نہیں ،ایسے میں اگر ایک طرف پرائیویٹ ہسپتالوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جائے اور دوسری جانب صحت سہولت کارڈ جیسی سکیموں کے تحت عوام کو سرکاری خرچ پر نجی ہسپتالوں میں علاج معالجے کی جدید سہولیات فراہم کی جائیں، تو یہ ملک کے عوام کے مفاد میں ہے۔وہ بدھ کو پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی )کے افتتاح کے بعد اظہار خیال کررہے تھے۔انہوں نے کہاکہ حکومت ملک بھر خصوصاً پسماندہ علاقوں میں نجی ہسپتالوں کے قیام کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ اور ان ہسپتالوں کے قیام کیلئے سرکاری اراضی بالخصوص وقف املاک سستے داموں فراہم کی جارہی ہیں تاکہ نجی شعبہ پسماندہ علاقوں میں جدید ہسپتالوں کے قیام میں دلچسپی لے اور ان علاقوں کے غریب عوام کو ان کی دہلیز پر علاج معالجے کی سہولیات میسر آسکیں۔ علاوہ ازیں طبی شعبہ کے لیے درکار آلات کی درآمد کو ڈیوٹی فری بھی کردیاگیاہے۔ انہوں نے صوبے میں صحت سہولت کارڈ جیسی فقید المثال سکیم متعارف کرانے اور پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی تکمیل پر صوبائی حکومت کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ چونکہ صحت سہولت کارڈ سکیم کے تحت سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ نجی ہسپتالوں میں بھی سرکاری خرچ پر غریب مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اس لیے اب نجی شعبہ صوبے کے پسماندہ علاقوں میں بھی ہسپتالوں کے قیام پر توجہ دے رہاہے اور اگر اس دوران حکومت کی جانب سے نجی ہسپتالوں کے قیام کیلئے پرائیویٹ شعبہ کو سہولیات دی جاتی ہیں تو ان ہسپتالوں کی تعمیر جلد ہوسکے گی اور صحت سہولت کارڈجیسی سکیموں سے فائدہ اٹھانے والے مریضوں کو علاج معالجے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر آسکیں گی۔ وزیراعظم نے کہاکہ جو لوگ حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ ریاست مدینہ کا قیام محض ایک نعرہ ہے وہ دیکھ لیں کہ صحت سہولت کارڈ جیسی سہولیات ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست کی جانب ایک عملی قدم ہے۔انہوں نے کہاکہ ریاست مدینہ پہلی اسلامی فلاحی ریاست تھی جس نے غریب اور پسے ہوئے طبقے کے مسائل ومشکلات کے حل کو اولین ترجیح دی اور پاکستان کی موجودہ حکومت بھی اسی نظریہ کے تحت آگے بڑھ رہی ہے’انہوں نے پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے قیام کو بھی صحت کے شعبہ میں ایک اہم ترین پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس انسٹیٹیوٹ کے قیام سے نہ صرف خیبرپختوابلکہ افغانستان کے ان مریضوں کو بھی بہترین طبی سہولیات میسر آئیں گی جو دل کے امراض میں مبتلاہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ بڑی بدقسمتی تھی کہ خیبرپختونخوا میں اب تک دل کے امراض کیلئے اس قسم کا انسٹیٹیوٹ نہیں تھا اور موجودہ صوبائی حکومت نے محدود وسائل اور کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال جیسے چیلنجز کے باوجودفنڈز کی فراہمی یقینی بناتے ہوئے پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی تکمیل یقینی بنائی ۔جس کیلئے خیبرپختونخوا حکومت کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہاکہ دنیامیں بھر میں دل اور کینسر کے امراض میں مبتلا مریضوں کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے اس لیے پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جیسے ادارے کا قیام ناگزیر تھا۔انہوں نے ہدایت کی کہ اس انسٹیٹیوٹ میں فراہم کی جانے والی جدید سہولیات کے معیار کو برقرار رکھاجائے کیونکہ عموماً سرکاری شعبہ میں قائم ہونے والے ہسپتالوں کے معیار کو برقرار نہ رکھنے سے ان ہسپتالوں کی کارکردگی کو تنزلی کا شکار ہوتے دیکھاگیاہے۔لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جو طبی مرکز بھی سرکاری شعبہ میں قائم ہو اس کے معیار کو برقرار رکھنے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے۔وزیراعظم نے اس موقع پر اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں اصلاحات کے عمل کے خلاف احتجاج کرنے والے طبی عملے کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کا طبی شعبے اور ہسپتالوں میں اصلاحات کا مقصد پرائیویٹا ئزیشن نہیں ہے بلکہ ان اصلاحات کا مقصد ہسپتالوں میں جزااور سزا کا نظام متعارف کرانااور مینجمنٹ سسٹم میں بہتری لانا ہے کیونکہ جزااور سزا کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری شعبہ میں قائم ہسپتالوں کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان پر سے عوام کا اعتماد اٹھ رہاہے