صحت مند عورت صحت مند اور مکمل خاندان کی بنیاد ہے،چھاتی کے سرطان کے حوالہ سے شعور سے اموات اور مریضوں میں کمی آئے گی،بیگم ثمینہ عارف علوی کا بریسٹ کینسر کے حوالہ سے آگاہی کیلئے منعقدہ تقریب سے خطاب

80
صحت مند عورت صحت مند اور مکمل خاندان کی بنیاد ہے،چھاتی کے سرطان کے حوالہ سے شعور سے اموات اور مریضوں میں کمی آئے گی،بیگم ثمینہ عارف علوی کا بریسٹ کینسر کے حوالہ سے آگاہی کیلئے منعقدہ تقریب سے خطاب

اسلام آباد۔25جون (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اہلیہ بیگم ثمینہ عارف علوی نے کہا ہے کہ ایک صحت مند عورت نہ صرف ایک صحت مند اور مکمل خاندان کی بنیاد ہے بلکہ پرعزم پاکستان کی نشوونما اور بقا کیلئے بھی ضروری ہے، چھاتی کے سرطان کے حوالہ سے جتنی زیادہ خواتین باشعور ہوں گی اس مرض سے ہونے والی اموات اور مریضوں میں کمی آئے گی۔

وہ جمعہ کو یہاں ایوانِ صدر میں بریسٹ کینسر کے حوالہ سے آگاہی کیلئے منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔ثمینہ عارف علوی نے کہا کہ وہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتی ہیں کہ انہوں نےایوانِ صدر میں چھاتی کے کینسر کے سلسلہ میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے تقریب کا انعقاد کیا، ہم پہلے بھی ملک بھر میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے ایک مہم چلاچکے ہیں اور قومی اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے ہم ہر فورم پر اس موذی مرض کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ تقریب بھی انہی کاوشوں کا حصہ ہے، مجھے امید ہے کہ ہماری کوششوں سے میری بہنوں میں آگاہی پیدا ہوئی ہوگی اور ان کے ذہنوں میں اس بیماری کے متعلق جو سوالات اور شکوک ہیں ان کا انہیں تسلی بخش جواب مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک صحت مند عورت نہ صرف ایک صحت مند اور مکمل خاندان کی بنیاد ہے بلکہ ایک صحت مند اور پُر عزم پاکستان کی نشوو نما اور بقا ء کے لیے بھی ضروری ہے۔

اعداد و شمار کے مطا بق بریسٹ کینسر پوری دنیا میں خواتین میں سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین اور ڈاکٹرز نے اس مرض کی علامات اور نتائج کے بارے میں بہت تفصیل سے آگاہ کیا ہے اور اس کی بروقت تشخیص کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ اس مرض کا علاج ممکن ہے اگر ہم اپنا معائنہ خود کرتے رہیں اور اسے خاندان کے دوسرے ارکان کے ساتھ شیئر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں،اس مرض کی بروقت آگاہی سے ہم بہت سی قیمتی جانوں کو بچا سکتے ہیں ۔

انہوں نے شرکا پر زور دیا کہ اپنے اردگرد خواتین کو بھی اس مرض کے بارے میں آگاہی دیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنا معائنہ خود کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اگر زیادہ سے زیادہ خواتین چھاتی کے سرطان کے حوالے سے باشعور ہوں گی تو عین ممکن ہے کہ نہ صرف اس مرض سے ہونے والی اموات میں کمی آئے بلکہ اس کے مریضوں کی تعداد میں بھی کمی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ چھاتی کے سرطان پر بات نہ کرنا مسئلے کا حل نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ ہم اس خطرناک مرض سے متعلق بات چیت کریں ۔

انہوں نے کہا کہ میں اس کی ابتدائی علامات سے اچھی طرح سے واقف ہوں، خواتین باقاعدگی سے چیک اپ کروانے کی عادت ڈالیں ۔ خواتین کو ہر سال ڈاکٹر کے پاس جا کر طبی معائنہ کرانا چاہئے، خصوصاً جن کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہے، اس طرح بر وقت اس مرض کی تشخیص ہو سکے گی اور اس کے علاج میں آسانی اور کامیابی زیادہ ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس مرض پر قابو پانے کے سلسلے میں حفاظتی اقدامات کے لئے ضروری ہے کہ خواتین کو پہلے گھر میں اپنا معائنہ کرنا چاہیے اور کسی بھی غیر معمولی تبدیلی محسوس ہونے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے، ضروری ہو تو میموگرافی اور سکریننگ بھی کرانی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں صدرِ عا رف علوی کی خصوصی ہدا یت کے تحت پاکستان میں ایک آ گاہی مہم جاری ہے ۔ حکومت ِ پاکستان نے بھی پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے پاکستانی معا شرے میں خواتین کے ہر طبقے میں اس بیماری سے متعلق شعور کو اجاگر کرنے کے لئے بہت سے پروگرامز کا انعقاد کیاہے اور یہ پروگرامز آئندہ بھی جاری رہیں گے ۔

انہوں نے ماہرین صحت، ماہرین تعلیم اور تمام متعلقہ اداروں پر زور دیا کہ اس حوالے سےآگاہی پیدا کریں۔ تعلیمی اداروں اور دفاتر میں اس طرح کے آگاہی سیمینارز منعقد کئے جائیں کیونکہ اس مرض کی بر وقت تشخیص اسی وقت ممکن ہے جب زیادہ سے زیادہ آبادی کو اس سے متعلق آگاہی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر میڈیا جس میں ڈیجیٹل میڈیا بھی شامل ہے اس میں بھرپور کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آ خر میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے تعاون کی شکرگزارہوں کہ نہ صرف آج اس آگاہی تقریب کا اہتمام کیا ہے بلکہ اس آفس کی خواتین کی سکریننگ اور میموگرافی کی سہولت کا بھی اہتمام کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل تحسین ہے کہ آپ ان کوششوں میں ہمارے ساتھ ہیں،میں امید کرتی ہوں کہ ہم سب مل کر مستقبل میں بھی اس حساس مسئلہ پر جامع کام کر کے قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے اور اپنی مشترکہ کوششوں سے اس بیماری کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔