صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابی ترمیمی بل 2022 نظر ثانی اور تفصیلی غور و خوض کے لیے واپس کردیا

97
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کو شام 4 بجے طلب کر لیا

اسلام آباد۔4جون (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 75 کی شق (1) (بی) کے تحت انتخابی ترمیمی بل 2022 وزیر اعظم کو پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹی (ایس) کی طرف سے نظر ثانی اور تفصیلی غور و خوض کے لیے واپس کردیا ہے۔ ایوان صدر کے پریس ونگ کی جانب سے ہفتہ کوجاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 46 کی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ بل کو پارلیمنٹ میں لانے سے قبل صدر کو اس قانون سازی کی تجویز سے آگاہ نہیں کیا گیا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 46 میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم تمام قانون سازی کی تجاویز پر صدر کو باخبر رکھے گا جووفاقی حکومت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے سامنے لانے کا ارادہ رکھتی ہو۔ صدرمملکت نے کہا کہ ان ترامیم کو قومی اسمبلی نے26 مئی اور سینیٹ نے 27 مئی کو عجلت اور مناسب تندہی کے بغیر منظور کیا۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے پر دور رس اثرات مرتب کرنے والی قانون سازی پر قانونی برادری اور سول سوسائٹی سے تفصیلی مشاورت کی جانی چاہئے تھی۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنی محنت کی کمائی کا حصہ ڈالتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ1990 کے بعد مختلف وزراء اعظم اور صدور کی جانب سے بیرون ملک دوروں کے دوران ان کے ساتھ وعدوں کے باوجود انہیں ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2018 میں اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی سے متعلق اپنے 2014 کے پہلے فیصلے کو برقرار رکھا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان سے باہر سے ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے اس وقت آئی ووٹنگ کی توثیق کی تھی جب آئی ووٹنگ کے طریقہ کار کو تیسرے فریق کے ذریعہ محفوظ، معتبر اور قابل بھروسہ قرار دیا گیا تھا جسے قبل ازیں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا نے محفوظ اور قابل عمل ہونے کا تعین کرنے کے لیے اسے بھجوایا تھا جس پر عدالت نے آئی ووٹنگ کو ایک پائلٹ پروجیکٹ میں استعمال کے لئے منظور کیا۔

صدر مملکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 2018 کے ضمنی انتخابات کے پروگراموں کے حوالے سے جاری کردہ مورخہ 17.08.2018 کے نوٹیفکیشن کے مطابق 37 حلقوں (قومی اور صوبائی) کے ضمنی انتخابات 14.10.2018 کو ہونے تھے۔ لہذا بعد میں ضمنی انتخابات (اگر کوئی ہیں) جیسا کہ ایکٹ کے سیکشن 94 کے مطابق پائلٹ پروجیکٹس کے لئے انتخابات کرائے جائیں گے تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے قابل بنایا جاسکے جو بلاشبہ انہیں اگلے عام انتخابات میں ووٹ دینے کا حقدار بناتا ہے۔

صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2014 میں اپنے فیصلے کے باوجود سسٹم کے استعمال نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 17 میں درج ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ صدر مملکت کو قانون سازی کی تجاویز کے متعلق مطلع نہ کرکے آئین کے آرٹیکل 46 کی خلاف ورزی کی گئی، بل جلد بازی میں 26 مئی کو قومی اسمبلی اور 27 مئی کو سینیٹ سے منظور ہوئے، معاشرے کیلئے دوررس اثرات والی قانون سازی پر قانونی برادری اور سول سوسائٹی کے ساتھ مشاورت کی جانی چاہیے تھی۔

صدر مملکت نے کہا کہ سمندر پار پاکستانی اپنی محنت سے کمائی دولت کے ذریعے ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار کرتے ہیں، سپریم کورٹ نے بھی2014 اور 2018 میں سمندرپار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کی توثیق کی تھی، ٹیکنالوجی میں بہتری لا کر بیرون ملک سے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جاسکتا ہے، عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ آئی ووٹنگ تھرڈ پارٹیز کی جانب سے محفوظ، معتبر اور قابل بھروسہ قرار دیا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 17 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے، دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعے روزانہ 8.5 ارب ڈالر کے محفوظ لین دین کئے جاتے ہیں، پاکستان کی ووٹنگ مشین میں پیپر ٹریل کا پورا سسٹم موجود ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین بیلٹ پیپر کی چھپائی اور گنتی میں مدد دیتی ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں ہر الیکشن کے نتائج کو چیلنج کیا جاتا ہے اورہر حکومت پر الزامات لگتے ہیں، نئی ترامیم ایک قدم آگے جانے اور گھبرا کر دو قدم واپس پلٹ جانے کے مترادف ہیں، ترامیم الیکشن میں شفافیت اور بہتری لانے کے تکنیکی عمل میں غیر ضروری تاخیر لانے کے مترادف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ انتخابی ترمیمی بل پر پیچھے کی جانب نہ جائے بلکہ مزید بہتری لا کر نفاذ یقینی بنایا جائے۔ صدر مملکت نے کہا کہ نئی ترامیم ایک قدم آگے بڑھنے اور پھر گھبرا کر دو قدم پیچھے جانے کے مترادف ہیں، ان کو واپس تبدیل کرنا پاکستان میں انتخابات کی ترقی اور شفافیت کے لیے ان تکنیکی عمل میں غیر ضروری طور پر تاخیر کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے سفارش کی کہ پارلیمنٹ کو ان قوانین پر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، درحقیقت ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے مقررہ وقت کے ساتھ ہی ان میں بہتری لانا چاہئے۔