صنفی مساوات کو یقینی بنانے میں حکومت اور معاشرے کے دیگر طبقات کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئےوفاقی وزراءاور ماہرین کا قومی مکالمہ سے خطاب

97

اسلام آباد۔23دسمبر (اے پی پی):وفاقی وزراءاور ماہرین نے خواتین کے قانونی، آئینی، سماجی اور اقتصادی قوانین کے عملی اطلاق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ صنفی مساوات کو یقینی بنانے میں حکومت اور معاشرے کے دیگر طبقات کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ صنفی بنیادوں پر تفریق کے خاتمہ اور خواتین کو قانونی اقتصادی اور سماجی لحاظ سے بااختیار بنانے کے قومی مکالمہ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ خواتین سے متعلق قوانین کے عملی اطلاق و نفاذ میں معاشرتی رویوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کے خاتمہ کا ایک فعال اور موثر منصوبہ بنایا ہے، حکومت نے وراثت اور ریپ کے قوانین پر کام کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ ایسے کیسز میں خواتین کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس طرح ریپ کے کیسز میں تحقیقات اور میڈیکولیگل سے متعلق مسائل کے حل پر بھی کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے ایجنڈے کو وزارت انسانی حقوق کے تعاون سے آگے بڑھایا جائے گا۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے خواتین، بچوں کے استحصال کے خاتمہ اور خواجہ سراﺅں کے حقوق کیلئے کئی قوانین بنائے ہیں جووینائل جسٹس نظام میں بھی پیشرفت ہو رہی ہے۔ اس ضمن میں بین الاقوامی تجربات سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد، ہراساں کئے جانے اور صنفی امتیاز پر واضح موقف ہونا چاہئے، اس طرح لاپتہ افراد کے خاندان کو لاپتہ ہونے والے شخص کے بینک اکاﺅنٹ اور جائیداد کی فروخت کی اجازت ہونی چاہئے۔ انہوں نے خواتین کیلئے علیحدہ پناہ گاہیں تعمیر کرنے کی تجویز بھی دی اور کہا کہ گذشتہ دو، اڑھائی سالوں میں بہت کام ہوا ہے تاہم مسائل زیادہ ہیں۔ انہوں نے جرنلسٹس پروٹیکشن بل پر شبلی فراز کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے قومی مکالمہ سے خظاب میں کہا کہ ماضی میں صحت اور تعلیم خواتین کیلئے روزگار کے دو بڑے شعبے تھے، اس وقت صحت کے شعبہ میں خواتین کی تعداد اگرچہ زیادہ ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ 40 فیصد خواتین ورک فورس میں نہیں آتیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے صحت اور نرسنگ کی تعلیم کے شعبوں میں بہتری لانے کیلئے کام کیا ہے، ناقص غذائیت کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے پانچ سالوں میں 2 ارب ڈالر خرچ کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے جو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے بہبود آبادی میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ صحت اور تعلیم صوبائی شعبے ہیں اور صوبائی سطح پر انتظامی ساخت کو بہتر بنانے سے بہبود آبادی سے متعلق بیشتر مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو ملک کے قومی دھارے میں لانا موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، یہ بات خوش آئند ہے کہ احساس پروگرام اور سماجی تحفظ کے تقریباً تمام پروگراموں میں ففٹی پلس رولز کی پالیسی اپنائی گئی ہے، اس کے تحت احساس کفالت، وسیلہ تعلیم، احساس انڈگریجویٹ پروگرام، احساس آمدن اور تخفیف غربت کے پروگراموں میں خواتین کو کیش امداد کے پروگرام سے خواتین کو براہ راست امداد فراہم کی گئی، تحفظ اور فراہمی روزگار خواتین پر احسان نہیں بلکہ یہ ان کا حق ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ احساس آمدن پروگرام ملک کے 23 غریب اور پسماندہ اضلاع میں کامیابی سے چل رہا ہے اور اس پروگرام سے استفادہ کرنے والوں میں 60 فیصد خواتین شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سماجی تحفظ کے پروگراموں کے تحت ادائیگی کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے اور اس ضمن میں سٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ شفقت محمود نے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ خواتین کی تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا لیکن بدقسمتی سے خواتین کی تعلیم کے لحاظ سے ہمارے اعداد و شمار حوصلہ افزاءنہیں، ملک کے کئی علاقوں بالخصوص بلوچستان میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینئر گریڈز تک پہنچتے پہنچتے خواتین کی اوسط بہت کم رہ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کی سکولوں کی کمی کی وجہ سے لڑکیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کیلئے ہماری کوششیں جاری ہیں، اس سلسلے میں وفاق کی سطح پر ہم ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کمی کو دور کرنیکی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں ورچول سکولز کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اس سے سکولوں تک رسائی کے مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ شفقت محمود نے کہا کہ سمارٹ کلاس یا پروجیکٹرز اور ہوم سکولنگ پر بھی کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ ملکی نصابی کورسز میں رویوں میں تبدیلی لانے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے تقریب سے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ مالیاتی نظام میں خواتین کی شمولیت کیلئے سٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ سٹیٹ بینک خواتین کو قرضہ جات اور مالیاتی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے نومبر 2019ءمیں نیشنل فنانشل انکلوژن سٹرٹیجی کی منظوری دی تھی۔ سٹیٹ بینک اس حکمت عملی پر کام کر رہا ہے، حال ہی میں سٹیٹ بینک نے کاروبار کرنے والی خواتین کیلئے قرضہ کی سکیم شروع کر رہی ہے جس کے تحت خواتین کو 5 فیصد کی شرح سود پر آسان قرضے دیئے جا رہے ہیں۔ اس سکیم کے تحت خواتین 50 لاکھ روپے تک کے قرضے حاصل کر سکتی ہیں۔ اس طرح کامیاب جوان پروگرام میں خواتین کا کوٹہ 25 فیصد ہے جس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ مالیاتی انکلوژن میں خواتین کی شمولیت کیلئے سٹیٹ بینک پرعزم ہے اور اس ضمن میں سٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرے گا۔ پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ خواتین کے سماجی، معاشی اور بحیثیت فرد حقوق کے تحفظ کیلئے موجودہ حکومت نے ایک فعال ایجنڈا ترتیب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے عمل میں خواتین پارلیمنٹرینز کو فعال کردار ادا کرنا چاہئے، ریپ کے خلاف قانون سازی میں خواتین ارکان پارلیمان نے بھرپور انداز میں حصہ لیا جو خوش آئند ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ملکی آئین اور قانون خواتین کے حقوق کا ضامن ہے تاہم قو انین ا عملی اطلاق ہونا چاہئے اور اس ضمن میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہئے۔ انہوں نے صنفی امتیاز کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ صنفی امتیاز کے خاتمہ اور مساوات کے قیام کیلئے معاشرے کے تمام مکتبہ ہائے فکر کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔ وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا کہ ہمیں قدرتی آفات، سیلابوں یا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر خواتین کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں کاٹن کی کاشت اور صنعت سے ہزاروں خواتین کا ذریعہ معاش وابستہ تھا لیکن گزشتہ کئی سالوں سے کاٹن کی بنیاد پر معیشت کی تنزلی سے وہاں کی خواتین کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں میں خواتین و کھانا کھانے کیلئے لکڑی جلانا پڑتی ہے جس سے وہاں کی گھریلو واتین کو سانس اور دیگر بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کر رہے ہیں جس کے تحت دذھوئیں سے پاک لکڑی جلانے کیلئے سٹوو بنائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں جس میں بالخصوص خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ہمیں ان مہاکر خواتین کی بحالی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔