طالبان حکومت کی خواتین کے حقوق پرپابندیاں ذہنی صحت کے بحران کو جنم دے رہی ہیں ، اقوام متحدہ

97
United Nations
United Nations

اقوام متحدہ ۔14اگست (اے پی پی):اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صنفی مساوات کی سینئر اہلکار ایلیسن ڈیوڈیان نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی خواتین کے حقوق پر پابندیاں ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ عالمی ادارے کی نمائندہ برائے افغانستان میں نمائندہ ایلیسن ڈیوڈیان نے دارالحکومت کابل سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات کرتے ہوئے نیویارک میں نامہ نگاروں کو اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ طالبان حکومت نے 3سالہ حکمرانی میں عوامی زندگی سے خواتین کی معاشرتی اور گھریلوسطح پر نمایاں طور پر حق تلفی کی ہے جس کے باعث خواتین ذہنی امراض کا شکار ہو رہی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت نے ان 3سالوں میں لاتعداد احکامات ، ہدایات اور بیانات جاری کئے جن میں خواتین اور لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے اور ان کی خودمختاری کو ختم کرنے کو ہدف بنایا گیا ۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے حکومتی احکامات میں لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم حاصل کرنے سے منع کر دیا گیا اور خواتین پر غیر سرکاری تنظیم (این جی اوز)میں کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔انہوں نے طالبان کی افغانستا ن میں واپسی کے بعد سے کابل سے لےکر دیہی علاقوں تک ملک بھر میں ہزاروں خواتین کے ساتھ مشاورت پر مبنی رجحانات کی تفصیلات بتائیں ۔

انہوں نے کہاکہ طالبان حکومت کا پہلا سب سے نمایاں رجحان افغان خواتین کو عوامی زندگی سے ہٹانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج تک افغانستان میں کوئی بھی خاتون سیاسی ، قومی یا صوبائی سطح پرکسی بھی قیادت کے عہدے پر فائز نہیں ہوئی ۔انہوں نے کہا اقوام متحدہ کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق99 فیصد خواتین نے محسوس کیا کہ ان کی برادریوں میں کیے گئے فیصلوں پرخواتین کی رائے یا شمولیت صفر ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کے دبائو نے خواتین کی ذہنی سطح کو اس حد تک متاثر کیاہے کہ وہ خوردونوش کی اشیا خرید نے کےقابل بھی نہیں رہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ خواتین سے تعلیم کا حق چھین لیتے ہیں اور ان کے حقوق کو گھریلوسطح تک محدود کرتے ہیں تو اس کا منفی اثر معاشرے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے،خواتین اور لڑکیوں پر طالبان حکومت کی پابندیاں آنے والی نسلوں کو متاثر کریں گی۔انہوں نے بتایاکہ ہمارے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 2026 تک، 1.1 ملین لڑکیوں کو سکول اور ایک لاکھ خواتین کے یونیورسٹی چھوڑنا پڑی ۔ان کا کہنا تھا کہ افغان خواتین میں قبل از وقت بچے پیدا کرنے میں 45 فیہ اور زچگی کی شرح اموات میں 50 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔