اقوام متحدہ۔15جنوری (اے پی پی):پاکستان نے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لئے تجارتی سپائی ویئر (جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والے سافٹ ویئر)کے پھیلاؤ اور غلط استعمال کے مضمرات سے نمٹنے کے لئے قانونی ڈھانچہ تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل نمائندہ عثمان جدون نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اریا فارمولا کے اجلاس کو بتایا کہ ریاست اور غیر ریاستی دونوں طرف سے تجارتی سپائی ویئر اور متعلقہ ٹیکنالوجیز کی غیر محدود دستیابی، پھیلاؤ اور غلط استعمال ایک اہم تشویش کے طور پر ابھرا ہے ۔
یہ اجلاس امریکا کی جانب سے بلایا تھا۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کے اس فارمیٹ کا نام اقوام متحدہ میں وینزویلا کے سابق سفیر ڈیاگو اریوا کے نام پر رکھا گیا ہے۔
یہ ایک مشاورتی عمل ہے جو سلامتی کونسل کے ارکان کو غیر رسمی ماحول میں لوگوں کو سننے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی سفیر نے سائبر سپیس کے غیر منظم فوجی ایپلی کیشنز، خفیہ معلومات کی کارروائیوں، سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کی خامیوں کے استحصال پر خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے اس فوری خطرے پر عالمی مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستانی سفیر نے 15 رکنی کونسل کو بتایا کہ سائبر سپیس کی عسکریت پسندی، ریاستوں کی طرف سے جارحانہ سائبر صلاحیتوں کی ترقی اور نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی بغیر کنٹرول فوجی ایپلی کیشنز ان خدشات میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سائبر سپیس کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کے لئے عالمی ریگولیٹری فریم ورک کی عدم موجودگی میں یہ پیش رفت بین الاقوامی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ہم نے اس طرح کی ٹیکنالوجی سے لاحق خطرات کا خود مشاہدہ کیا ہے جب جارحیت عناصر ہمارے شہریوں، عوامی شخصیات اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کے لئے سپائی ویئر ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے پائے گئے۔
اس طرح کے بدنیتی پر مبنی اقدامات واضح طور پر ذمہ دار ریاستی رویے کے عالمی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے جس میں طاقت کا عدم استعمال، ریاست کی خودمختاری اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت شامل ہے جبکہ موجودہ بین الاقوامی قانون سائبر سپیس پر لاگو ہوتا ہے۔
پاکستانی سفیر عثمان جدون نے کہا کہ اس کی امتیازی نوعیت کی وجہ سے کچھ خامیاں باقی ہیں ۔ اس سے نمٹنے کے لئےپاکستان نے مستقل طور پر ایک قانونی فریم ورک پر پیش رفت کی حمایت کی ہے تاہم کہا ہے کہ جہاں تک روایات کا تعلق ہے وہ بنیادی طور پر امن کے وقت میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہ قانونی طور پر پابند کرنے والے ایسے معاہدے کی جگہ نہیں لے سکتیں جس میں ذمہ داریوں کا واضح تعین کیا گیا ہو۔
اس سلسلے میں پاکستانی مندوب نے ایک ایسے معاہدے کی تجویز پیش کی جس پر عملدرآمد قانونی طورپر لازم ہو ، اس پر بات چیت کی جائے اور اقوام متحدہ کے ایک جامع عمل کے ذریعے اسے اپنایا جائے۔
مجوزہ فریم ورک کا مقصد ہے آئی سی ٹی (انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی) کی ایسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا جو اہم بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتی ہیں، نقصان دہ خطرات پیدا کرتی ہیں یا سپلائی چین کی سکیورٹی پر سمجھوتہ کرتی ہیں،سرویلنس ٹیکنالوجیز بشمول سپائی ویئر کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ریگولیٹری مکینزم قائم کریں،پرامن مقاصد کے لیے ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا اور صلاحیت سازی کی کوششوں کو بڑھانے کے لئے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانا، انتساب کے چیلنجز اور محفوظ سرحد پار ڈیٹا ایکسچینج جیسے مسائل کو حل کرنے کے لئے میکانزم تیار کریں اور غلط فہمیوں کو کم کرنے اور علاقائی اور عالمی استحکام کو بڑھانے کے لئے سائبر سکیورٹی میں اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایمز ) کو فروغ دیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی مکالمے کو فروغ دینے کے لئے پرعزم ہے جس کا مقصد تمام اقوام کو پائیدار ترقی کا احساس کرنے کے لئے ایک محفوظ اور مستحکم ڈیجیٹل ماحول کے لیے ضوابط اور تحفظ کے طریقے تیار کرنا ہے۔ پاکستانی سفیر عثمان جدون نے مزید کہا کہ پاکستان بین الاقوامی امن اور سلامتی کو درپیش اس فوری خطرے پر عالمی مذاکرات کو فروغ دینے اور متعلقہ عالمی اور جامع فورمز پر ان اہم مسائل پر مزید بات چیت کے لئے تمام رکن ممالک کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے۔