بیجنگ۔29مارچ (اے پی پی):عالمی برادری کی مشترکہ اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے، طالبان حکومت کے ساتھ روابط کے بغیر افغان مسائل کا حل ناممکن ہے ،افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا تیسرا اجلاس افغانستان کی مشکل صورتحال میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات چین کی سائوتھ ویسٹ یونیورسٹی آف پولیٹیکل سائنس اینڈ لا کے وزٹنگ پروفیسر،جنوبی ایشیائی مما لک میں چین کے سابق دفاعی اتاشی اور چارہار انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو چینگ ژزہانگ نے منگل کو ایک بیان میں کہی۔
افغانستان صورتحال کے حوالے سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان، ایران، روس، تاجکستان،ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ کا 2روزہ تیسرا اجلاس 30مارچ سے چین کے صوبہ انہوئی کے ضلع تونشی میں منعقد ہو گا۔اجلاس کی صدارت چین کے سٹیٹ قونصلر اور وزیر خارجہ وانگ یی کریں گے جس میں پاکستان، ایران، روس، تاجکستان،ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ اور ان کے نمائندے شرکت کریں گے۔
چینی سکالر چینگ ژزہانگ نے کہا کہ اس وقت افغانستان کی صورتحال میں پیش رفت کا نہ صرف افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے گہرا تعلق ہے بلکہ پوری دنیا پر اس کے اثرات ہیں لہٰذا یہ عالمی برادری کی مشترکہ اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کی صحیح سمت میں رہنمائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کی حکومت ایک ٹھوس حقیقت ہے ۔افغان طالبان حکومت کے ساتھ روابط کے بغیر افغان مسائل کا حل ناممکن ہے۔پابندیوں کے تسلسل سے افغانستان کے حالات صرف خراب ہوں گے لہذا امریکا اور عالمی برادری کو افغان حکومت کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ افغان مسئلے پر مزید اتفاق رائے پیدا کریں اور اس بات کو مدنظر رکھیں کہ افغانستان میں امن و استحکام کو کس طرح فروغ دیا جائے اور انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے افغان عوام کی مشترکہ مدد کے لیے عالمی برادری پر کس طرح دباؤ ڈالا جائے۔ نیز یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال ملک میں امریکا کی 20 سالہ جنگ کی وجہ سے ہے اور انسانی بحران کو حل کرنے اور افغانستان کی تعمیر نو کی بنیادی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ افغانستان کے معاملے پر عالمی برادری مثبت رویہ اپنائے اور مسلسل کوششیں کرے، ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے۔ اگر عالمی برادری دوبارہ ناکام ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں مہاجرین کی نئی لہر ، دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ میں اضافہ ہوگا۔
چینی سکالر نے کہا کہ افغان طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ہی عالمی برادری افغان فریق کو ایک کھلا اور جامع سیاسی ڈھانچہ بنانے، اعتدال پسند اور مستحکم ملکی اور خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر طریقے سے لڑنے کے لیے فروغ دے سکتی ہے۔