اسلام آباد۔20اکتوبر (اے پی پی):سینیٹر مشاہد حسین سید نےترکیہ کے صدررجب طیب اردگان سے مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کے لیے قیادت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے 3 نکاتی ایکشن پلان پیش کیا۔ صدر اردگان کی اے کے پارٹی کی دعوت پر مشاہد حسین سید نے ترکیہ کے دارالحکومت میں منعقد ہونے والی عالمی فلسطین کانفرنس میں اپنے کلیدی خطاب میں 3 نکاتی ایکشن پلان پیش کیا۔
صدر اردگان اس کانفرنس کے مہمان خصوصی تھے۔ مشاہد حسین سیدجو استنبول میں قائم القدس پارلیمنٹ کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن اور بین الاقوامی کانفرنس آف ایشین پولیٹیکل پارٹیز(آکیپ)کے شریک چیئرمین بھی ہیں نے اسرائیلی جارحیت اور صیہونی توسیع پسندی کے خلاففلسطین، لبنان اورایران کی مزاحمت کو مثالی نمونہ قرار دیا۔ مشاہد حسین نے صدر اردگان کی قائدانہ صلاحیتوں کو سراہا اور انہیں مسلم دنیا کا شیر قرار دیا اور ترک صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی پر انہیں مبارکباد دی۔
مشاہد حسین نے اسرائیل کو تاریخ کی پہلی ٹیلیویژنی نسل کشی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور مغربی ممالک کے دوہرے معیار اور اخلاقی فقدان کی بھی مذمت کی جنہوں نے اسرائیلی جرائم میں فعال طور پر مدد اور حمایت کی۔تقریب میں موجود 50 سے زائد ممالک کے تقریباً 1000 مہمانوں کے سامنے اپنا ایکشن پلان پیش کرتے ہوئے مشاہد حسین نے کہا کہ پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ صدر اردگان قیادت کریں اور ایک بین الاقوامی رہنماؤں کا وفد تشکیل دیں جس میں گلوبل ساؤتھ بشمول پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، جنوبی افریقہ، الجزائر اور برازیل کے رہنما شامل ہوں ۔
یہ وفد 5 نومبر کے امریکی صدارتی انتخابات کے بعد فوراً واشنگٹن کا دورہ کرے اور نومنتخب امریکی صدر سے ملاقات کرے اور یکطرفہ امریکی پالیسی کو واپس لینے پر زور دے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم رہنماؤں کو باتوں اور الفاظ سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ترکی، پاکستان اور انڈونیشیا اپنی مضبوط بحریہ کے ساتھ امن اور انسانی امداد کے لیے ایک مشترکہ بحری بیڑا تشکیل دیں تاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظوری لینے کے بعد غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑ سکیں۔ یہ بحری بیڑا ادویات، خوراک اور امدادی سامان لے جائے تاکہ غزہ میں محصور فلسطینیوں کی تکالیف کو کم کیا جا سکے جسے انہوں نےدنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا۔
اس سے مظلوم فلسطینی عوام کو ایک طاقتور اور مثبت پیغام ملے گا کہ مسلم امہ کوئی بے بس اکائی نہیں بلکہ اس میں وژن اور سیاسی عزم موجود ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات کرے۔تیسرا نکتہ یہ تھا کہ 2019 میں صدر اردگان اور ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر کے مشترکہ اقدام کو یاد کرتے ہوئے جس کے تحت ایک عالمی میڈیا اقدام کا آغاز کیا گیا تھا تاکہ مسلم امہ کی نمائندگی ‘نظریات اور بیانیوں کی جنگ’ میں کی جا سکے۔ مشاہد حسین نے کہا کہ ‘اب وقت اور موقع ہے کہ اس اقدام کو آگے بڑھایا جائے کیونکہ غزہ کے معاملے پرمغربی میڈیا کے تعصب اور یکطرفہ ہونے کو ثابت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافی، دانشور، ماہرین تعلیم اور تھنک ٹینک ‘نظریات کی جنگ’ میں سچائی اور حقائق پر مبنی بیانیے تیار کرنے اور پیش کرنے میں طاقتور کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ گلوبل ساؤتھ اور خاص طور پر مسلم دنیا کی عوامی امنگوں کی نمائندگی کر سکتے ہیں جن میں فلسطین، کشمیر، اسلامو فوبیا اور روہنگیا جیسے مسائل شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا عالمی میڈیا اقدام انصاف اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ایک متبادل ابھرتے ہوئے منصفانہ عالمی نظام کے لیے اہم کردار ادا کرے گا جس کا آغاز عالمی یا علاقائی ہر قسم کی بالادستی کے انکار سے ہونا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین اور لبنان کے عوام کی قربانیاں اور فلسطین اور کشمیر کے شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔مشاہد حسین سید کی تقریر کو نہایت سراہا گیا ۔ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام لاطینی قول ‘کارپے ڈیم’ (موقع سے فائدہ اٹھاؤ) کے حوالے سے کیا۔