عدالتی اصلاحات میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا ہے، پیپلز پارٹی اس کیلئے تیار ہے، وزیر خارجہ کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال

اسلام آباد۔27جولائی (اے پی پی):وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عدالتی اصلاحات میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا ہے، پیپلز پارٹی اس کے لئے تیار ہے، سپیکر سینٹ اور قومی اسمبلی کے دونوں اطراف کے ارکان پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کریں، 19ویں آئینی ترمیم ہماری غلطی تھی، ہمیں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم سب کو مل کر دلیری سے یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا، جو گند چار سال میں پڑا وہ تین ماہ میں صاف نہیں ہو سکتا، وقت آگیا ہے کہ آئین اور جمہوریت کا دفاع کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کل سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا جس میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ، وزیراعلیٰ کے عہدے، انتظامی اور سیاسی امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں نے ایکس وائی زیڈ کے نام اور اداروں کو دھمکی دیئے بغیر اتنی گزارش کی تھی کہ چونکہ ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے کے بارے میں فیصلہ کر رہا ہے تو پورا ادارہ یعنی فل کورٹ بنایا جائے اور جو بھی فیصلہ آئے گا تو ہم قبول کریں گے، ہمارا یہ مطالبہ صرف وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لئے نہیں تھا ، جب گزشتہ حکومت کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے آئین توڑا تو اس وقت بھی ہمارا یہ مطالبہ تھا کہ یہ آئین اور جمہوریت کے مستقبل کا سوال ہے اس لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے لیکن اس وقت بھی ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ اب فل کورٹ تشکیل دی گئی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ فل کورٹ کا ہمارا مطالبہ جائز اور آئین کے مطابق تھا، آئین کی روح سے اعلیٰ عدلیہ آئین پاکستان کی تشریح کا ذمہ دار ہے۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل میں ہمیں تیس سال لگے، ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر آئین سازی کا عمل مکمل کیا، جب اس آئین کو توڑا گیا تو اس میں سارے ادارے شامل تھے، جس کی بحالی میں ہمیں 30 سال لگے۔ بے نظیر بھٹو نے 30 سال آئین کی بحالی کی جدوجہد کی اور اس راہ میں شہادت قبول کی۔ ہمیں فخر ہے کہ 2008ء سے لے کر 2013ء تک قومی اسمبلی نے 1973ء کے آئین کو بحال کیا۔ کالی شقیں اور آمر کے ڈالے ہوئے قوانین کو اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں آئین سے نکالا گیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، لاکھوں ووٹروں سے ایک ممبر قومی اسمبلی بنتا ہے، کروڑوں لوگ مل کر آئین میں ایک کوما اور فل سٹاپ تبدیل کرتے ہیں۔ ہم نے صدر پاکستان سے بھی آمرانہ اختیارات سلب کرلئے اور وہ اختیارات پارلیمان کو منتقل کئے۔ ماضی میں صدر اٹھاون ٹو بی کے مطابق حکومت کو گھر بھیج سکتا تھا، ہم نے میثاق جمہوریت کیا تاکہ ادارے آزاد ہوں، سپریم کورٹ آزاد ہو اور عوام آزادی کے ساتھ بول سکے۔ میڈیا کی آزادی ہو ۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 2008ء سے لے کر 2013ء تک جب ہم دہشتگردی کے خلاف اور معیشت اور جمہوریت سے متعلق مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کر رہے تھے تو یہ عوام کے مینڈیٹ اور پارلیمان پر حملے کرتے رہے، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری جن کی بحالی کے لئے گوجرخان سے لے کر کراچی تک ہمارے جیالوں نے جدوجہد کی اور گولیوں کا سامنا کیا، کسی کے ہاتھوں میں آکر پارلیمان اور حکومت کے خلاف آئین اور قانون سے ماورا فیصلے دیئے، ہمارے وزیراعظم اور حکومت وقت نے عدالتوں پر کوئی حملہ نہیں کیا، ہم اپنی راہ پر چلتے رہے، ہم نے اپنی مدت مکمل کی اور پرامن انتقال اقتدار کو ممکن بنایا، اس دوران آلو اور سموسے کی قیمتوں کے فیصلے کورٹ روم نمبر ون میں ہو رہے تھے،

وزیر خارجہ نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو اور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے، اس میں ہم نے عدالتی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا، ہم نے ایک آئینی عدالت بنانا تھی، ہم چاہتے تھے کہ کسی جج کا حق نہیں کہ وہ اپنے بھائی اور رشتہ دار کو اعلیٰ عدلیہ میں شامل کر سکیں۔

ہم نے ہائوس کو اختیار دیا کہ اس عمل میں بار کونسلز اور پارلیمان سمیت سب کی نمائندگی ہو لیکن اس وقت اسی ہائوس ، وزیراعظم اور وزیر قانون کو دھمکی دی گئی کہ اگر آپ نے ایسا کیا اور 19ویں ترمیم کو پاس نہ کیا تو ہم 18ویں ترمیم کو اڑا دیں گے، یہ ہماری غلطی تھی کہ ہم اس دھمکی میں آگئے، ہمیں 19ویں آئینی ترمیم کی منظوری نہیں دینی چاہیے تھی اور عدالت کو بتانا چاہیے تھا کہ یہ آئین پاکستان ہے، اگر آپ کو یہ منظور نہیں ہے تو آپ گھر چلے جائو، آئین پاکستان اور جمہوریت کے لئے ہماری جماعتوں نے جدوجہد کی ہے، اس وقت کی اپوزیشن عدالتی فعالیت پر خوش تھی لیکن جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہیں معلوم ہوا کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے، عوام کی رائے یہ ہے کہ اس وقت عدلیہ کا کردار آئین کے مطابق نہیں تھا، اس وقت کی عدلیہ نے دو تہائی اکثریت کے وزیراعظم کو گھر بھیجا، پارٹی صدارت کا اختیار پارٹی سے لیا گیا۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹروں کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے دیا گیا، 2018ء کے عام انتخابات میں چند ججوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں ثاقب نثار ہمارے خلاف مہم چلاتا رہا، وہ کبھی لاڑکانہ میں جج کو تھپڑ مارتا اور کبھی کراچی میں تقاریر کرتا، فیصل صالح حیات کے انتخاب میں ری پولنگ ہو رہی تھی، چیف جسٹس مخالف امیدوار کے پاس پہنچتا ہے اور وہ ریٹرننگ افسر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کے خلاف فیصلہ کرے۔ ایک ریٹرننگ افسر سپریم کورٹ کے جج کے سامنے کیا کہہ سکتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 2018ء سے اپریل 2022ء تک ادارے کا کردار آئینی نہیں بلکہ ایک سلیکٹڈ نظام کو بچانے کے لئے تھا، ہمارے ادارے آئینی نہیں بلکہ متنازعہ کردار ادا کرتے رہے، ہم چاہتے ہیں کہ ادارے آئینی کردار ادا کریں۔ آئینی اداروں کا کردار متنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے معاملے میں فل کورٹ کا مطالبہ کیا، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تھا کہ حمزہ وزیراعلیٰ ہو یا پرویز الہی وزیراعلیٰ بنیں لیکن ایک پاکستان میں دو پاکستان نہیں چل سکتے۔

ایسے نہیں ہو سکتا کہ ایک فیصلے میں آپ پارٹی لیڈر کے کہنے پر ووٹ ڈالنے کو جائز قرار دیں اور پھر ایک ماہ کے بعد وہی عدالت اس کیس میں فیصلہ سنائے کہ پارلیمانی لیڈر کا فیصلہ قبول ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ملک میں دو آئین بیک وقت چلیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمان کے کردار کو تحفظ دیا جائے، عدلیہ کا کام یہ نہیں کہ وہ آئین میں ترمیم کرے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم برسوں جدوجہد کریں اور تین ججز قلم کی نوک سے آئین پاکستان کو تبدیل کریں، اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو پاکستان میں جمہوریت کا سفر نامکمل ہوگا۔ عدالتی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ جس طرح عدلیہ نے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت کا مطلب وزیراعظم نہیں بلکہ وزیراعظم اور کابینہ ہے، اسی طرح سپریم کورٹ کا مطلب صرف چیف جسٹس آف پاکستان نہیں بلکہ تمام برادر اور محترم ججز صاحبان ہیں۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو، وہ قانون سازی کرے اور وہ اس بات کا تعین کرے کہ کسی مقدمے میں کتنے ججز کو فیصلہ کرنا ہوگا، ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ ججز کے چنائو، سو موٹو اور اپیلوں میں اتفاق کے مطابق فیصلے ہوں۔ عدالتی اصلاحات میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ سپیکر سے میرا اور پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ وہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائیں کیونکہ یہ پوری قوم کا ایشو ہے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک رات کی نیوٹریلٹی سے 70 سال کے گناہ معاف نہیں ہوتے، پاکستان کے عوام کیا 70سال کی آئین شکنی کو معاف کریں گے، کیا یہ ممکن ہے کہ چار سال میں جو معاشی، جمہوری، معاشرتی اور خارجہ پالیسی کے بحرانوں سے قوم کو دوچار کیا گیا وہ شہباز شریف تین ماہ میں حل کرے، کیا ان کے پاس جادو کی چھڑی ہے، پاکستان کے عوام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم ان سے سچ بولیں گے۔ گزشتہ چار برسوں میں عمران خان نے ریکارڈ قرضے لئے، اس نے معاشرے اور معیشت کو تباہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم سب کو مل کر دلیری سے یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ جو گند چار سال میں پڑا وہ تین ماہ میں صاف نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ یہ کام نہیں کر سکتی تو پھر وقت ضائع کرنے کی بجائے تالہ لگا دیا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ آئین اور جمہوریت کا دفاع کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ سپیکر کمیٹی بنائیں ہم اس کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں، ایک ملک میں دو آئین نہیں چلیں گے۔