اسلام آباد۔17جنوری (اے پی پی):فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کے حوالے سے جمعہ کو بھی آئینی بنچ میں دلائل کا سلسلہ جاری رہا۔آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی جبکہ بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن سیاست اور احتجاج کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ 9 مئی 2023 کو جو ہوا وہ سیاست اور پرامن احتجاج سے بالاتر تھا۔ ریاستی املاک پر حملے اور سلامتی کی خلاف ورزی کو جمہوری حقوق کا استعمال نہیں کہا جا سکتا۔۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا جرم ہے۔ لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ کو آگ لگا دی گئی۔ اسی دن اور تقریباً ایک ہی وقت میں ملک بھر میں مختلف مقامات پر ریاستی املاک پر حملے ہوئے۔ عدالت جرم کے ہونے سے انکار نہیں کر رہی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ حقیقت ہے اور جرم کا ہونا ثابت ہے ۔ عدالت نے 9 مئی کے ملزمان کو کلین چٹ نہیں دی تاہم سوال یہ ہے کہ ان ملزمان پر مقدمہ کہاں چلایا جائے؟ 21 ویں آئینی ترمیم سیاسی کارکنوں کو فوجی عدالت میں ٹرائل سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
جسٹس محمد علی نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں تمام جرائم کا ذکر اور وضاحت موجود ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں کیس فوجی عدالت میں جائے گا۔خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ فیئر ٹرائل کا سارا طریقہ کار رولز اور آرمی ایکٹ میں بیان کیا گیا ہے۔ 21 ویں ترمیم کو سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کے اکثریتی فیصلے سے برقرار رکھا گیا۔ ہر جج نے اپنے طریقے سے ترمیم کو برقرار رکھا۔
عدالت کے ایک سوال کے جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ 21ویں ترمیم کیس میں کسی جج نے ایف بی علی کی درخواست کے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی جس میں ایک سویلین کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کو سپریم کہا جاتا ہے، کیا پارلیمنٹ پر حملے کے ملزمان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا؟ کیا پارلیمنٹ پر حملہ توہین نہیں؟سماعت پیر 20 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔