اسلام آباد۔3مارچ (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ وہ احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ عدم اعتماد کی بات اپوزیشن کی خام خیالی ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کی اسمبلیوں میں نمائندگی سے ہٹ کر اگر کوئی نتیجہ آتا ہے تو یہ ایک سوالیہ نشان ہے، اگر اخلاقیات کی بات کی جائے تو یوسف رضا گیلانی کو تو سینٹ الیکشن میں امیدوار ہی نہیں ہونا چاہیے تھا، سیاسی جماعتوں میں اراکین کے درمیان اختلاف رائے ہونا بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے، پی ٹی آئی کی دوسری امیدوار فوزیہ ارشد اکثریت لیکر کامیاب ہوئی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں سے متعلق بھی کچھ ویڈیوز دیکھیں جن میں ان کے الیکشن کمپین کے طریقے دیکھے جا سکتے تھے، میرے خیال میں شاید اس طریقے نے زیادہ کردار ادا کیا ہے بہر حال ابھی اس معاملے کو دیکھا جائے گا لیکن یہ قطعاً عدم اعتماد کا اظہار نہیں ہے، اس سلسلے میں اگر اپوزیشن نے اپنا شوق پورا کرنا ہے تو وہ ضرور اپنا شوق پورا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے وزیراعظم کے عہدے سے نا اہل قرار دیئے گئے تھے، اس وقت منی لانڈرنگ کے کیسز کو این آر او دے کر بند کر دیا گیا تھا ان کیسز کو کھلوانے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم کو حکم دیا تھا کہ حکومت خط لکھے کہ یہ کیسز غلط طریقے سے بند کروائے گئے تھے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم کو نہیں مانا، اس حوالے سے اگر اخلاقیات کی بات کی جائے تو یوسف رضا گیلانی کو امیدوار ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں یہ ہماری سیاسی یا اخلاقی انحطاط ہے کہ یوسف رضا گیلانی سینٹ کے امیدوار تھے اور اس کے بعد طرہ یہ ہے کہ جب یہ امیدوار بن بھی گئے تو اس کے بعد ان کے صاحبزادوں کے کارناموں کی پورے میڈیا پر ویڈیوز چلی کہ کس طرح سے ووٹ ضائع کرنے کے طریقے بتائے جا رہے ہیں، پیسوں کی بات اور سندھ میں ٹھیکے دینے کی بات ہو رہی ہے، اس سب کے باوجود وہ مقابلہ کرتے ہیں اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے نظام کی فعالیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہم نے ریفرنس دائر کیا اور اس کے مطابق سپریم کورٹ نے وضاحت بھی کر دی اور یہ کہا کہ سینٹ کے الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہی ہونگے لیکن سینٹ کے الیکشن میں کرپشن نہ ہونے دینا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور وہ اس کے لئے اقدامات اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے کہا کہ آپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسا سسٹم وضع کرنا چاہیے جس سے الیکشن میں کرپشن نہ ہو سکے لیکن الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا کیونکہ الیکشن کمیشن کو لگا کہ ایسا کرنے کے لئے اس کو چار ہفتے درکار ہیں تو اس کے بعد نتیجہ اب سب کے سامنے ہے۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی اسمبلیوں میں نمائندگی سے ہٹ کر اگر کوئی نتیجہ آتا ہے تو یہ ایک سوالیہ نشان ہے، اسی طرح کی کرپٹ پریکٹسز کی ویڈیوز 2018ء کے الیکشن کے حوالے سے بھی سامنے آئیں اور یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کی ویڈیو بھی سامنے آئی، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ایسی کرپٹ پریکٹسز سے ہی سیاست ہونی ہے یا کسی اصول پر سیاست ہونی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ احتساب کے عمل پر اپوزیشن کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ہے لیکن ان پر جو کیسز ہیں ان کو میرٹ کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے، ایسا نہیں ہے اگر کوئی سیاسی شخص ہے تو اس کے خلاف احتساب ہو گا تو وہ سیاسی انتقام ہوگا، ہمیں ان کے کیس فیکٹس کے مطابق دیکھنا چاہیے، نواز شریف کو جس کیس پر سزا ہوئی وہ پی ٹی آئی کی حکومت میں نہیں بنایا بلکہ اس وقت ان کی اپنی حکومت تھی اور سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی اور انہوں نے کیس بھیجا۔