عرب ، مسلمان اور عالمی برادری مسجد اقصیٰ کی تقسیم کے مجوزہ اسرائیلی منصوبے پر عملدرآمد رکوانے کے لئے کردار ادا کرے، فلسطینی وزیر اعظم

205

رام اللہ ۔13جون (اے پی پی): فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ نے مسجد اقصیٰ کی مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کے حوالے سے مسودہ قانون کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس مجوزہ قانون پر عملدرآمد کو روکنے کے لئے ترکیہ، انڈونیشیا اور مصر سے مدد کی درخواست کا عندیہ دیا ہے۔

عرب نیوز کے مطابق فلسطینی وزیر اعظم نے اسرائیلی حکام کو بھی خبر دار کیا کہ وہ مسودہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے باز رہیں۔ انہوں نے مزید خبر دار کیا کہ اس اقدام سے بے پناہ اشتعال پھیل سکتا ہے اور فلسطینی ، عرب اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئےمسجد اقصیٰ کے ایک مقدس مقام ہونے کی وجہ سے اس اقدام کے ناقابل تصور نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے عرب ،مسلم اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ اس اقدام کی محض مذمت کی بجائےعملی اقدام کرے اور اسرائیل پر ایسی پابندیاں عائد کرے کے وہ مسجد اقصیٰ کے حوالے سے موجودہ قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہ کر سکے۔ فلسطینی باشندوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ اسرائیل کی لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ امیت ہالیوی کی طرف سے مسجد اقصیٰ کی مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم پر مشتمل مسودہ قانون کو منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ا قدام ایک بڑے منصوبے کا نقطہ آغاز ہے جس کا نتیجہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بڑے پیمانے پر جنگ اور تشدد کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

اس مسودہ قانون میں مسجداقصیٰ کے صحن میں واقع گنبد صخرہ کے صحن سے لے کر مسجد اقصیٰ کی شمالی حد تک کا علاقہ یہودیوں کو الاٹ کرنا تجویز کیا گیا ہے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ امیت ہالیوی کے مجوزہ منصوبے پر عملدرآمد کی صورت میں مسجد اقصیٰ کی حیثیت الخلیل میں واقع مسجد ابراہیم جیسی رہ جائے گی جس کا 75 فیصد حصہ یہودیوں کو عبادت کے لئے الاٹ کر دیا گیا ہے جبکہ مسلمانوں کے لئے صرف 25 فیصد حصہ باقی بچا ہے۔ نئے قانون کی منظوری کی صورت میں یہودیوں کو تمام دروازوں سے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔

اس وقت یہودیوں کو صرف مراکشی دروازےسے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ یہ مسودہ قانون اسرائیلی کابینہ کےمنگل کو شروع ہونے والے اجلاس میں منظوری کے لئے پیش کیا جانا ہے ۔ واضح رہے کہ موجودمعاہدے کے تحت مسجد اقصی سے متعلق امور کی نگرانی اس وقت فلسطین اور اردن کے پاس ہے اور یہ دونوں مسجد اقصیٰ کی حدود میں تبدیلی یا مداخلت کے اسرائیلی حکومت کے منصوبوں کی مخالفت کررہے ہیں۔

مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق امور کے لئے صدارتی مشیر احمد الرویدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالےسے فلسطینی کردار کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ صرف مسلمانوں کا مقدس مقام ہے اور اسرائیل کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہونے قدامت پسند یہودی جماعتوں کو مسجد اقصیٰ پر دھاوے بولنے اور اس حوالے سےاشتعا ل انگیز بیانات جاری کرنے کے لئے گرین سگنل دے رکھا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم ایسے اقدامات سے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یاد رکھیں کہ ایسے اقدامت کے نتیجہ میں شروع ہونے والی ممکنہ جنگ کے نتائج سب کو بھگتنا پڑیں گے۔