عرب اور مسلم عوام فلسطینیوں حق خود ارادیت اور ریاست کے لئے جدوجہد کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کا سلامتی کونسل کے اجلاس میں اظہار خیال

143
delegate Munir Akram
delegate Munir Akram

اقوام متحدہ۔21جنوری (اے پی پی):پاکستان حالیہ فوجی کارروائیوں میں مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدل کر رکھ دینے کے اسرائیلی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے باوجود خطے کی روح متاثر نہیں ہوئی اور عرب اور مسلم عوام فلسطینی عوام کے اپنے حق خود ارادیت اور ریاست کی جدوجہد کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے مشرق وسطی کے چہرے کو بدل کر رکھ دینے کے دعوے کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کی روح کو تبدیل نہیں کیا ہے اور نہ ہی کر سکتا ہے۔

پاکستانی مندوب نے الجزائر کی صدارت میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بحث کے دوران کہا کہ خطے کی روح یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ ساتھ امن کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بدلے ہوئے سٹریٹجک منظر نامے میں بھی عرب اور مسلم عوام انصاف کے ساتھ امن اور فلسطینی عوام کے لیے مساوی حقوق، بشمول ان کے حق خود ارادیت اور ریاستی حیثیت کے حصول کے لئے ان کی جدوجہد کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نےغزہ میں اتوار کی عارضی جنگ بندی، اسرائیلی حملوں سے شروع ہونے والی لبنان میں دشمنی کے خاتمے اور شام میں بشارالااسد حکومت کے خاتمے کے پس منظر میں ہونے والی بحث کا آغاز کیا۔انہوں نے اپنے لبنان کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کریں کہ مشرق وسطیٰ کے لوگ امن، وقار اور عمل کی بنیاد پر امید کے ساتھ اس ہنگامہ خیز سے باہر نکلیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ امید کی کرن ہے۔ معاہدے کا پہلا مرحلہ اتوار کو نافذ ہوا، حماس نے تین خواتین یرغمالیوں کو رہا کیا اور اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہمارے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں، ہمیں اس لمحے غزہ میں فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی کی تعریف کرنی چاہیے۔ اپنے ریمارکس میں پاکستانی مندوب نے پاکستان کی طرف سے اس امید کا اظہار کیا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے تمام مراحل مکمل طور پر نافذ العمل ہوں گے اور یہ کہ جنگ بندی مستقل ہو جائے گی۔انہوں نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے دو ریاستی حل کو بحال کرنے پر زور دیا جس کے نتیجے میں فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ ہمیں غزہ میں فوجی حملے دوبارہ شروع کرنے کی اسرائیلی دھمکیوں پر تشویش ہے ،ہم اس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہ فلسطینی غزہ کی جامع موثر گورننس کے انتظامات پر متفق ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اسرائیل کی غزہ میں تباہی، اس کی غزہ کی ناکہ بندی اور فلسطینیوں کو جان بوجھ کر بھوک سے مارنے کی اس کی حکمت عملی سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کو فوری طور پر حل کرنا چاہیے، جس میں غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر انسانی ہمدردی کے اداروں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے لیے تمام کراسنگ پوائنٹس کھولے جائیں۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل اور عالمی برادری کی طرف سے فلسطینیوں کو اہم لائف لائن فراہم کرنے والے اقوام متحدہ کے اداراے یو این آر ڈبلیو اے کو بند کرنے کی اسرائیل کی کوششوں کی بھرپور مخالفت کی جانی چاہیے۔ انہوں نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پاکستان محصور لوگوں کی مدد کرے گا۔ بے گھر فلسطینیوں کو شمالی غزہ سمیت اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل بنایا جانا چاہیے اور اسرائیل کو جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق اپنی افواج کو غزہ سے نکالنے کا پابند ہونا چاہیے۔

انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ٹھوس منصوبہ تیار کرنے اور اس پر تیزی سے عملدرآمد کے لیے فلسطینیوں کی مدد کرے۔ سلامتی کونسل کو اسرائیل کے جنگی جرائم کے لیے اس کی جوابدہی کو یقینی بناتے ہوئے فلسطین اور وسیع مشرق وسطیٰ میں بین الاقوامی قانونی حیثیت اور پائیدار امن کی بحالی کے لیے بھی کام کرنا چاہیے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ پائیدار امن کی تعمیر میں سب سے اہم قدم اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان دو ریاستی حل کے حصول کے لیے سیاسی اور سفارتی عمل کا احیا ہے جس کی بنیاد فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور علاقے میں طاقت کے استعمال کے عدم حصول پر مبنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل اسرائیل، فلسطینیوں اور عرب اور مسلم دنیا کے درمیان پائیدار امن کے لیے سب سے زیادہ امید افزا، منصفانہ اور قابل عمل فریم ورک ہے۔ در حقیقت ، جنرل اسمبلی کی قرارداد 181 سے قائم ہونے والے اسرائیل کے وجود کو صرف اسی صورت میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے جب وہاں ایک علیحدہ اور خودمختار فلسطینی ریاست موجود ہو۔بصورت دیگر ایک طویل اور ظالمانہ قبضے کے نتیجے میں اس مقدس سرزمین پر ایک پرتشدد مزاحمت اور دائمی تنازعہ جاری رہے گا جو پورے مشرق وسطیٰ کو متاثر کرے گا اور اسرائیل اور عرب اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات میں زہر گھولتا رہے گا۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد کے رکن کے طور پر ایسے حل کو فروغ دینے کے لئےکام کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست فلسطین کو اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کی طرف سے تسلیم کیا جانا چاہیے اور اسے اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کرنا چاہیے۔ انہوں نے لبنان میں جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم بھی کیا جس میں فرانس اور امریکا کی جانب سے سہولت فراہم کی گئی۔ انہوں نے اسرائیلی افواج سے مقررہ 60 دنوں کے اندر جنوبی لبنان سے انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو لبنان پر اپنے مسلسل حملوں کو روکنا چاہیے جو 26 نومبر کے دشمنی کے خاتمے کے معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جامع سیاسی عمل اور طرز حکمرانی کے ذریعے شام میں استحکام کی حمایت کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ دہشت گردی کو اس ملک میں یا وہاں سے دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اسرائیل کو 1974 کے علیحدگی کے معاہدے کے تحت قائم علیحدگی کے علاقے سے فوری طور پر دستبردار ہونا چاہیے اور اسے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ شام کی گولان کی پہاڑیوں سے بھی دستبردار ہونا چاہیے۔

پاکستانی مندوب نے یمن کے خلاف اسرائیلی اور دیگر فضائی حملوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی جہاز رانی پر یمن سے حملے بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کو ایران کے خلاف مزید اسرائیلی حملوں کی اطلاع پر بھی تشویش کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج مخالفانہ بیان بازی کے باوجود ایران جوہری معاہدے (جے سی پی او اے)کو منصفانہ شرائط پر بحال کرنے کا ایک موقع ہے ، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدام سے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور سلامتی کے احسا س میں مدد ملے گی۔