عوامی مسائل اور ان کے حل پر مشاورت کرنے کا بہترین فورم پارلیمان ہے، 20 دسمبر کو سینیٹ اور 22 دسمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کی صحافیوں سے گفتگو

80

اسلام آباد۔13دسمبر (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ عوامی مسائل اور ان کے حل پر مشاورت کرنے کا بہترین فورم پارلیمان ہے، 20 دسمبر کو سینیٹ اور 22 دسمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، اپوزیشن کا لانگ مارچ کرپشن بچاؤ مہم ہے اور پہلے کی طرح اب بھی این آر او کے حصول کے حربے ناکام ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیرکو وزات پارلیمانی امور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ لانگ مارچ رول بیک ہو چکے ہیں، یہ طے ہو گیا کہ عوام کے مسائل پر بات کرنے کے لئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے، اس لئے ہم پارلیمنٹ کا اجلاس بلا رہے ہیں، چیئرمین سینیٹ سے گفتگو ہوئی ہے، 20 دسمبر کو سینیٹ کا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے، 22 دسمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ سانحہ سیالکوٹ کے حوالے سے بھی دونوں ہائوسز میں بحث ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی قانون سازی جو مختلف مراحل میں ہے، اس کو بھی ایوان میں لایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے بہت فعال قانون سازی کی ہے، پاکستان کی تاریخ کی اہم ترین قانون سازی کی گئی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کتنی سنجیدہ ہے، ساڑھے تین سال سے اپوزیشن کے لوگ دھرنوں کی نعرے بازی کر رہے تھے، اب انہوں نے دھرنوں کی تاریخ التواء دیدی ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ اب دھرنے، لانگ مارچ اور احتجاج کی سیاست نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس پارلیمانی سال کے اندر ہم مزید اہم قانون سازی لے کر آ رہے ہیں، اس قانون سازی سے پہلے جو قانون سازی ہوئی ہے، قانون بن چکا ہے اور اس پر عملدرآمد الیکشن کمیشن نے کرانا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تین اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے، پہلا قدم تو یہ ہے کہ فوری طور پر مشینز کی تخصیص پر مبنی اشتہار دیا جائے تاکہ خریداری ہو سکے، حکومت نے یہ مشینز نہیں خریدنی بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خریدنی ہیں، دوسرا یہ کہ نظام الاوقات دیا جائے، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک خط میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ عملدرآمد کے لئے ان کا داخلی نظام سنجیدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی نظام الاوقات دے تاکہ وہ اپنے ووٹ کو رجسٹرڈ کرا سکیں جو ایک کروڑ سے زائد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پارلیمانی افیئرز کی وزارت سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ کی خرید و فروخت کی روک تھام کے حوالے سے مجوزہ اہم قانون سازی کے بارے میں بریفنگ دے گی۔

ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے صدر مملکت نے ایک ریفرنس فائل کیا تھا، سپریم کورٹ آف پاکستان سے رائے مانگی تھی، سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے قرار دیا کہ اگر ضرورت پڑے شناخت کرنے کے لئے پردہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ کسی نے ووٹ بیچا ہے یا نہیں، یا جس پارٹی سے وہ آیا ہے اسی پارٹی کو اس کا ووٹ گیا ہے؟ اس حوالے سے پارلیمانی امور اور الیکشن کمیشن کا آپس میں رابطہ ہے اور دونوں کی مشاورت کے ساتھ ہم قانون سازی کرنے لگے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو حکومت نے مجرم قرار نہیں دیا، وہ عدلیہ سے سزا یافتہ ہیں، عدلیہ نے اسے باہر بھجوانے کا حکم دیا، عدلیہ نے اسے واپسی کا حکم دیا ہے، عدلیہ نے اسے اشتہاری مجرم قرار دیا ہے، اس کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا کہا ہے، حکومت اس پر عملدرآمد کے اقدامات کر سکتی ہے، میرا نہیں خیال کہ ان کا پاکستان میں کوئی مستقبل ہے، ان کو بھی پتہ لگ گیا ہے اس لئے وہ پاکستان میں مال بنانے، اپنے ذاتی کام پورے کرنے اور یہاں سے دولت کو باہر بھجوانے کے طریقے نکالنے کے لئے آتے ہیں لیکن وہ راستے اب بند ہو چکے ہیں، اس لئے نواز شریف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے اور اسی لئے ہائوس آف شریف کی لڑائی میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ بلاول اور مریم آپس میں آن بورڈ نہیں ہیں، نواز شریف اور مریم آپس میں آن بورڈ نہیں ہیں، شہباز شریف اور مولانا آپس میں آن بورڈ نہیں ہیں، یہ جو بڑھکیں مارنے کے لئے اکھٹے ہیں مجھے یہ بتا دیں کہ جونہی یہ حکومت آئی تھی اس وقت جو لانگ مارچ کا رول بیک ہوا تھا اس کا ایجنڈا کیا تھا؟ کسی کو آج بھی تک یہ پتہ نہیں چلا، ان کو خود پتہ نہیں ہے کہ ایجنڈا کیا ہے اس لئے یہ کرپشن بچائو مہم ہے اور این آر او کے مختلف حربے ہیں جن میں پہلے بھی ناکام تو ہوتے رہے ہیں لیکن اب تو کھل کر ناکام ہو گئے ہیں۔