ملتان۔ 03 جون (اے پی پی:جنوبی پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں میں جیسے ہی عید الاضحیٰ کے دن قریب آتے ہیں، جانوروں کی آوازیں بلند اور معاشی سرگرمیوں کی چہل پہل تیز ہو جاتی ہے۔ یہ دن صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ہزاروں کسانوں، بیوپاریوں، مزدوروں اور کاریگروں کے لیے معاشی خوشحالی کا موسم بھی ہے۔پپلی اڈہ (وہاڑی) کے رہائشی محمد حسین ایک چھوٹے درجے کے کسان ہیں جو سال بھر مویشی پالتے ہیں۔ وہ اپنے سانڈ کو سہلاتے ہوئے کہتے ہیں، "یہی ہماری فصل ہے، میں صرف گندم نہیں اُگاتا بلکہ بیل بھی پالتا ہوں، عید ہمارا فصل کٹائی کا موسم ہے۔” وہ اپنے جانوروں کو ہاتھ سے کٹی ہوئی گھاس کھلاتے ہیں، ان سے باتیں کرتے ہیں، اور شہر سے آنے والے خریداروں کے لیے انہیں خاص طور پر سنوارتے ہیں۔محمد حسین جیسے ہزاروں افراد جنوبی پنجاب میں مہینوں کی محنت، محبت اور سرمایہ کاری کے بعد قربانی کے موقع پر بہتر منافع کی امید رکھتے ہیں۔
کسانوں اور شہروں کے خریداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں مڈل مین، جیسے کہ چک نمبر 34/WB کے ملک ندیم۔ وہ کہتے ہیں، "میں دور دراز دیہاتوں سے مویشی لا کر ملتان، وہاڑی اور لاہور کی منڈیوں میں پہنچاتا ہوں۔ یہ آسان کام نہیں، مگر سال بھر کی محنت کا صلہ انہی دنوں میں ملتا ہے۔”مویشیوں کی فروخت کے ساتھ ساتھ کئی دیگر کاروبار بھی چمکنے لگتے ہیں۔ چاہ ڈرھکنوالا کے نوجوان اللہ دتہ عید سے قبل گھاس کے گٹھے عام دنوں کے مقابلے میں دُگنے داموں بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، "عید کے دنوں میں لوگ اپنے جانوروں کو بہترین چارہ کھلاتے ہیں، اس لیے میری جھونپڑی کے باہر منڈی کے دن رات ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔”سفی نذیر جانوروں کے لیے رنگ برنگی رسیاں، گھنٹیاں، گلے کے ہار اور کشیدہ کاری والے کپڑے بیچتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، "جب بچہ کسی بیل سے محبت کرتا ہے تو اسے دلہن کی طرح سجاتا ہے
” عید پر ان کی فروخت پانچ ہندسوں تک پہنچ جاتی ہے جو ان کے اہلخانہ کی کئی مہینوں کی ضروریات پوری کرتی ہے۔قربانی کے بعد بھی کہانی ختم نہیں ہوتی۔ اللہ رکھا جیسے سماجی کارکن دروازے دروازے جا کر جانوروں کی کھالیں جمع کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، "ہم ضلعی انتظامیہ سے اجازت لے کر گاؤں کی فلاحی تنظیم کے لیے کھالیں جمع کرتے ہیں تاکہ دینی مدارس، یتیم بچوں اور غریبوں کی مدد ہو سکے۔”عید پر سب سے مصروف ہاتھ قصابوں کے ہوتے ہیں۔ وہاڑی سے تعلق رکھنے والے عرفان جٹ ہر سال عید کے موقع پر لاہور کا رخ کرتے ہیں۔ "لوگ کئی ہفتے پہلے سے بکنگ کرا لیتے ہیں، ان تین دنوں میں اتنا کما لیتا ہوں جتنا گاؤں میں تین مہینے میں نہیں کما پاتا،”جنوبی پنجاب کے لوگوں کے لیے عید الاضحیٰ صرف روایت نہیں بلکہ روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک ایسا تہوار جو کھلیانوں کو منڈیوں میں بدل دیتا ہے
جھونپڑیوں کو دکانوں میں، اور ہنر مند ہاتھوں کو قیمتی خدمات میں تبدیل کر دیتا ہے۔سورج تلے تپتے باڑوں سے لے کر رنگ برنگی مارکیٹوں تک، یہ مقدس دن محنت کی کمائی سے بھرپور خوشیاں لے کر آتے ہیں۔ یہ ایک اربوں روپے کی معیشت ہے جو ایمان، جدوجہد اور اُن خوابوں سے جڑی ہے جو مویشیوں کے گرد گھومتے ہیں۔