اقوام متحدہ۔7جون (اے پی پی):اقوام متحدہ نے تنازعات، موسمیاتی شدت میں اضافے، معاشی مشکلات اور کورونا وائرس کی وبا کو متوقع غذائی بحران کی وجوہات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں 20 سے زیادہ ممالک میں غذائی بحران کے خدشات ہیں اس سلسلے میں فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) اور ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ تنازعات، موسمیاتی شدت میں اضافے، معاشی مشکلات اور کورونا وائرس کی وبا متوقع غذائی بحران کا باعث ہیں ۔
ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل چو ڈونگ یو نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے سے جڑے ان بحرانوں کے مشترکہ اثرات کے بارے میں گہری تشویش ہے کیونکہ یہ بحران لوگوں کی خوراک پیدا کرنے اور ان تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور لاکھوں مزید افراد کو خوراک کے شدید عدم تحفظ کی انتہائی سطح پر دھکیل رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان بحرانوں سے نمٹنے کے لئے زیادہ متاثرہ ممالک میں کسانوں کی مدد کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کسانوں کی خوراک کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانا بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ خشک سالی، سیلاب، سمندری طوفان، غذائی اجناس اور لائیوسٹاک کی پیداوار کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بے گھر کر دیتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک میں لاکھوں لوگوں کو تباہی کے دھانے کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔
ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے خبردار کیا کہ متوقع غذائی بحران صرف غریب ترین طبقہ کو ہی نہیں بلکہ ان لاکھوں خاندانوں کو بھی متاثر کرے گا جو اب تک کسی نہ کسی طرح گزارہ کر رہے ہیں۔ 2008۔2007اور 2011 میں عرب سپرنگ کے دوران 48 ممالک سیاسی بدامنی، فسادات اور مظاہروں کے دوران پیدا ہونے والے غذائی اشیاکی قیمتوں کے بحران کہیں زیادہ خراب ہیں۔ انڈونیشیا ، پیرو اور سری لنکا کے حالات ممکنہ بحران کی صرف ایک جھلک ہیں۔ ہمیں اس چیلنچ سے نمٹنے کے لئے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق ایتھوپیا، نائیجیریا، جنوبی سوڈان اور یمن کے بعض علاقوں میں غذائی تحفظ کے حوالہ سے حالات انتہائی خراب ہیں اور عنقریب افغانستان اور صومالیہ بھی اس زمرے میں شامل ہو سکتے ہیں، ان ممالک میں ساڑے 7 لاکھ سے زیادہ افراد شدید غذائی قلت اور فاقہ کشی کا شکار ہو سکتے ہیں جبکہ ایتھوپیا کے علاقے ٹیگرے میں ایسے حالات سے دوچار افراد کی تعداد 4 لاکھ کے قریب ہے۔ رپورٹ کے مطابق ممکنہ غذائی بحران کا شکار ہونے والے دیگر ممالک میں ہیٹی، کانگو، کینیا، انگولا، لبنان، مڈغاسکر، موزمبیق، بینن، کابور وردے، زمبابوے ، گنی اور یوکرین شامل ہیں۔