تل ابیب۔28اکتوبر (اے پی پی):اسرائیلی حکومت کا تخمینہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اس کی فوجی کارروائیوں کی مجموعی لاگت 60 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے ، ان بھاری جنگی اخراجات کے اسرائیلی معیشت پر اثرات واضح ہونا شروع ہو چکے ہیں۔بی بی سی کے مطابق اسرائیلی وزیر خزانہ بزالیل سموٹرچ نے غزہ اور لبنا ن میں جاری جنگ کو ملک کے لئے تاریخ کی سب سے طویل اور مہنگی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی لاگت 54 ارب سے 68 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے جبکہ ایران کے خلاف میزائل حملے اس لاگت میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی شیفلڈ ہالم یونیورسٹی کے ماہر معیشت ڈاکٹر امر کا کہنا ہے کہ آئندہ سال بھی جاری رہنے کی صورت میں اسرائیلی جنگ پر لاگت کا تخمینہ 93 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جو اس کی سالانہ آمدن 530 ارب ڈالر کا چھٹا حصہ ہے۔
بینک آف اسرائیل نے جنگی اخراجات کے لئےقرضے حاصل کرنے کے لئے حکومتی بانڈز کی فروخت میں اضافہ کیا ہے اور صرف مارچ 2024 میں اس طرح 8ارب ڈالر کی رقم حاصل کی گئی ،بینک بانڈز کو اندر ون ملک اور بیرون ملک فروخت کرتا ہے جن میں بیرون ملک مقیم اسرائیلیوں کے لیے خصوصی بانڈز شامل ہوتے ہیں،تاہم بینک کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بیرون ملک رہنے والے لوگ اسرائیلی حکومت کے بانڈز خریدنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔
بینک کے مطابق نو فیصد سے بھی کم بانڈز بیرون ملک مقیم لوگوں کے پاس ہیں، یہ تعداد ستمبر 2023 کے مقابلے میں تقریبا پانچ فیصد تک کم ہے ۔اگست 2024 کے آغاز سے تین بین الاقوامی مالیاتی کریڈٹ ایجنسیوں موڈیز، فچ اور سٹینڈرڈ نے اسرائیلی حکومت کے قرضوں کی ریٹنگ میں کمی کی ہے کیونکہ ا نہیں یہ لگتا ہے کہ یہ حکومت قرضہ واپس نہیں کر سکتی ۔اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کے ماہر معیشت اور بینک آف اسرائیل کی سابق گورنر پروفیسر کرنیٹ فلگ کہتی ہیں کہ اسرائیلی حکومت اس وقت تقریبا 10 ارب ڈالر تک کی ٹیکس چھوٹ کو ختم کرنے اور اس کے ساتھ نئے ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے
، توقع ہے کہ شہریوں کے ساتھ ساتھ بعض اتحادی جماعتوں کی طرف سے بھی ان اقدامات کی مخالفت کی جائے گی ، اسرائیلی حکومت نے اب تک ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی حکمت عملی تشکیل نہیں دی۔ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 میں اسرائیلی معیشت ترقی کر رہی تھی لیکن جنگ کے بعد سے یہ زوال پذیر ہوئی ، گزشتہ سال عالمی بینک کے مطابق اسرائیل کے جی ڈی پی میں اعشاریہ ایک فیصد تک کمی ہوئی ۔
دوسری جانب بینک آف اسرائیل کا اندازہ ہے کہ رواں سال ترقی کی رفتار صرف اعشاریہ پانچ فیصد تک رہے گی، گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیل میں کئی کمپنیوں کو عملے کی کمی کی شکایت کا سامنا بھی رہا جس کی وجہ سے ان کی کاروباری صلاحیت اور پیداوار متاثر ہوئی،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج نے تین لاکھ 60 ہزار ریزرو اہلکاروں کو فوجی ڈیوٹی کے لئے بلا لیا تھا،اس وقت اگرچہ ان میں سے بہت سے واپس آ چکے ہیں تاہم لبنان میں کارروائی کے وقت 15 ہزار کو پھر واپس بلا لیا گیا ۔
اس کے علاوہ اسرائیلی حکومت نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر غزہ اور غرب اردن سے دو لاکھ 20 ہزار فلسطینیوں پر بھی اسرائیل میں داخل ہونے پر پابندی لگا رکھی ہے جس سے اسرائیل کا تعمیراتی شعبہ خاص طور پر متاثر ہوا ہے جس میں 80 ہزار فلسطینی کام کرتے تھے جن کی جگہ لینے کے لیے اب سری لنکا، انڈیا اور ازبکستان سے ہزاروں مزدوروں کو رکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا ٹیکنالوجی کا شعبہ یہ استعداد رکھتا ہے کہ وہ جنگ کے بعد ملکی معیشت کو ایک بار پھر مضبوط بنا دے لیکن ایک بات طے ہےکہ طویل عرصہ تک جاری رہنے والی اس جنگ کے بعد معیشت کی بحالی کا عمل کمزور اور زیادہ طویل ہو سکتا ہے۔