غزہ میں اسرائیلی حملوں کے باعث جبری بے گھر فلسطینیوں کے پاس پناہ کے لیے جگہ ختم ہو گئی، اقوام متحدہ

141
Gaza since
Gaza since

اقوام متحدہ۔5جولائی (اے پی پی):اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے باعث بے گھر فلسطینیوں کے لئے پناہ کی جگہ ختم ہو گئی ہے۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے)نے یو این نیوز کو بتایا کہ محصور غزہ میں اسرائیلی بمباری جمعرات تک رات بھر جاری رہی جہاں اسرائیلی فوج کے انخلا کے احکامات پر بے دخل ہونے والے لاکھوں فلسطینی یو این آر ڈبلیو اے کے سکولوں اور سرکاری عمارتوں میں پناہ لے رہے ہیں جبکہ کئی دوسرے علاقوں میں ایسی عمارتیں نہ ہونے کے سبب بہت سے لوگ واپس جانے پر مجبور ہیں۔ یو این آر ڈبلیو اے نے ایک بار پھر خبر دار کیا ہے کہ سڑکوں اور عارضی پناہ گاہوں کے قریب کچرے اور کوڑے کے ڈھیروں کی وجہ سے صورتحال ناقابل برداشت ہے۔یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران ایک اندازے کے مطابق 85,000 افراد مشرقی غزہ شہر کے ضلع شجاعیہ کو چھوڑ چکے ہیں،پیر کی شام کو انخلاکے نئے احکامات کے بعد منگل تک کم از کم 66,700 مزید غزہ کے باشندے مشرقی خان یونس اور رفح سے بے گھر ہو چکے تھے۔ یو این آر ڈبلیو اے نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے دفاتر جن کو بے گھر فلسطینی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں کے علاوہ اب مزید ہزاروں فلسطینی خاندان اسرائیلی فوجی کی بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے ڈھانچوں میں یا کچرے کے ڈھیروں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔اقوام متحدہ کا ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او )پہلے ہی جنگ سے تباہ حال غزہ میں مختلف امراض پھیلنے سے خبر دار کر چکا ہے اور اس کے اندازوں کے عین مطابق غزہ میں اسہال اور ہیپاٹائٹس سمیت متعدی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور خاص طور پر کمزور مدافعتی نظام ، اور غذائی قلت کا شکار فلسطینی بچے ان کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔یو این آر ڈبلیو اے نے کہا کہ خان یونس کے علاقے میں فوجی کارروائی ایک ایسے وقت میں لوگوں کی محفوظ پانی تک رسائی کو مزید متاثر کر سکتی ہے جب علاقے میں گندے پانی کی نکاسی کا نظام بری طرح متاثر ہونے کے باعث بیماریاں پھیلنے کی وجہ بن رہا ہے۔رات کے وقت جاری اسرائیلی بمباری سے پیدا ہونے والے مہلک خطرات کے علاوہ غزہ کے لوگوں کو نہ پھٹنے والے ہتھیاروں کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ دفتر او سی ایچ اے کے مطابق 29 جون کو خان ​​یونس میں ایک نامعلوم ڈیوائس کے دھماکے سے 9سالہ بچی شہید اور 3 افراد زخمی ہو گئے۔ او سی ایچ اے نے کہا کہ اسرائیلی بمباری کے دوران نہ پھٹنے والا اسلحہ لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہےکیونکہ خاندانوں کو ان علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں بمباری کی گئی ہو یا وہ گزشتہ شدید لڑائی کا منظر تھے۔ اقوام متحدہ کے مائن ایکشن ماہرین کے مطابق امکان ہے کہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے غرہ میں گرائے گئے گولہ بارود کا 10 فیصد نہیں پھٹ سکا۔ یو این آر ڈبلیو اے نے کہا کہ یہ عام شہریوں اور خاص طور پر بہت سے بچوں کے لیے ایک مہلک خطرہ ہے جو روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے پانی اور خوراک حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ غزہ میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے دیگر شراکت داروں کی مدد سے پانی، خوراک اور دیگر ضروری اشیا کی فراہمی جاری رکھی ہےلیکن خان یونس اور رفح کے لیے پیر کی شب اسرائیل کی جانب سے انخلا کے نئے احکامات جاری کیے جانے کے بعد ضروریات کا پیمانہ بہت زیادہ ہے، جس میں کل کا تقریباً ایک تہائی حصہ غزہ کا ہے ۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی نے کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے پانی، کھانے پینے کی اشیا ، آٹا، ڈائپرز ، میٹرس ، ترپال اور صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے ایندھن ، تیل کی کمی کی وجہ سے اقوام متحدہ کے لیے کسی قسم کی امداد کی فراہمی تقریباً ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔نقل مکانی کے مزید احکامات ایک بار پھر ہماری حفاظت اور امداد حاصل کرنے کے لیے سرحدی کراسنگ تک رسائی حاصل کرنے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک تقریباً 38 ہزار فلسطینی شہید اور 87 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ او سی ایچ اے نے رپورٹ کیا کہ مغربی کنارے میں 7 اکتوبر سے اسرائیلی فضائی حملوں کے 28 واقعات ہو چکے ہیں جن میں گزشتہ ہفتے کے دو واقعات بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی دفتر نے بدھ کو ایک اپ ڈیٹ میں کہا تھا کہ ان فضائی حملوں میں 77 فلسطینی شہید ہوئے تھے جن میں 14بچے بھی شامل ہیں ۔ او سی ایچ اے نے بتایا کہ تلکرم میں نور شمس پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فورسز کے حالیہ حملے میں کم از کم 200 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔