واشنگٹن ، رام اللہ ، تل ابیب ۔6جولائی (اے پی پی):امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ دنوں غزہ میں جنگ بندی سے متعلق ایک نئے معاہدے کا باضابطہ اعلان خود کریں گے۔العربیہ کے مطابق اس مجوزہ معاہدے کی تفصیلات موقر عربی جریدے "المجلہ” نے شائع کی ہیں۔امریکی صدر یہ اعلان اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے واشنگٹن میں ملاقات سے قبل کریں گے، جبکہ حماس پہلے ہی اس امریکی تجویز پر اپنا باضابطہ جواب مصری و قطری ثالثوں کو فراہم کر چکی ہے اور فوری مذاکرات کی آمادگی ظاہر کر چکی ہے۔
معاہدے کا مسودہ غزہ میں دو ماہ کی جنگ بندی، قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ، انسانی امداد کی ترسیل، اسرائیلی افواج کا جزوی انخلاء اور مستقبل میں مکمل جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کے نکات پر مشتمل ہے۔شروع میں 60 روز کے لیے مکمل جنگ بندی ہو گی۔ امریکہ اور صدر ٹرمپ اس بات کی ضمانت دیں گے کہ اسرائیل اس مدت کے دوران حملہ نہیں کرے گا۔اسرائیل کی جانب سے فراہم کردہ "58 افراد” کی فہرست میں سے 10 زندہ یرغمالی اور 18 شہید فلسطینی مختلف ایام میں واپس کیے جائیں گے جس میں پہلےدن 8 زندہ قیدی،ساتویں دن 5 لاشیں،30ویں 5 لاشیں50ویں دن 2 زندہ قیدی،60 ویں دن 8 لاشیں واپس کی جائیں گی ۔
جنگ بندی پر رضامندی کے فوری بعد غزہ میں امدادی سامان داخل ہو گا، جس کی تقسیم اقوام متحدہ اور ہلال احمر کے تعاون سے ہو گی۔ امداد کی نوعیت اور مقدار 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے مطابق ہو گی۔معاہدے کے نافذ ہونے پر تمام اسرائیلی فوجی حملے روک دیئے جائیں گے۔ دورانِ جنگ بندی روزانہ 10 گھنٹے فضائی سرگرمی معطل رہے گی، اور قیدیوں کے تبادلے کے دنوں میں یہ مدت 12 گھنٹے ہو گی۔پہلے دن شمالی غزہ اور نیٹزاریم کوریڈورسے فوجی پیچھے ہٹیں گے۔
ساتویں دن جنوبی غزہ سے بھی جزوی انخلاء ہو گا۔ تکنیکی ٹیمیں حتمی سرحدوں پر بعد ازاں بات چیت کے ذریعے فیصلہ کریں گی۔پہلے ہی دن مذاکرات کا آغاز ہو گا جن میں یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی انخلاء، سکیورٹی انتظامات اور غزہ کا مستقبل زیرِ بحث آئیں گے۔امریکی فریقین کی سنجیدگی کو یقینی بنانے کے لیے خود اس عمل کی نگرانی کریں گے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ مذاکرات کسی دیرپا امن معاہدے پر منتج ہوں گے۔قیدیوں کے بدلے ایک طے شدہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جو بغیر کسی رسمی تقریب کے عمل میں آئے گا۔
دسویں دن حماس باقی ماندہ یرغمالیوں سے متعلق مکمل معلومات دے گی جن میں "زندہ ثبوت” اور طبی رپورٹس شامل ہوں گی۔60 دن کے اندر مستقل جنگ بندی پر اتفاق ہو جائے تو فہرست میں شامل باقی تمام قیدی بھی رہا کیے جائیں گے۔ بصورتِ دیگر جنگ بندی میں توسیع ہو سکتی ہے۔امریکہ، مصر اور قطر اس جنگ بندی کے ضامن ہوں گے اور اس کی مدت، شرائط اور مذاکراتی عمل کی نگرانی کریں گے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف خطے کا دورہ کر کے مذاکرات کی صدارت کریں گے۔معاہدے کا باضابطہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود کریں گے، جنہوں نے اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی ذاتی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ مجوزہ معاہدہ غزہ میں جاری انسانی بحران کے خاتمے، جنگ بندی کے قیام اور دیرپا حل کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔