غزہ والوں نے اپنی قربانیوں سےاسرائیلی قبضہ کے خلاف عالمی تحریک برپا کروا دی ہے ،ماہرین

156
International experts and intellectuals

اسلام آباد۔7نومبر (اے پی پی):عالمی امور کے بین الاقوامی ماہرین و دانشوروں نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری نسل کشی نے قانون اور اصول  کی نام نہاد بنیادوں پر  قائم عالمی نظام اور اس کے ذمہ دار عالمی اداروں کے اخلاقی دیوالیہ پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔

دنیا بین الاقوامی سطح پر ، با الخصوص مغرب میں نچلی سطح سے بھرپورعوامی حمایت سے ابھرنےوالی ایک بڑی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہی ہے کیونکہ لاکھوں لوگ فلسطینیوں کیلئے انصاف کیلئے روزانہ ریلیاں نکال رہے ہیں۔ مسلم دنیا، گلوبل ساؤتھ، روس اور چین اپنی نرم طاقت کے ساتھ اجتماعی طور پر عالمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،

یہ بیانیہ معروف پاکستانی اور بین الاقوامی دانشوروں اور ماہرین کے کچھ اہم مشاہدات تھے جن کا اظہار انہوں نے منگل کو  ‘غزہ کے بحران کے 30 دن: عالمی ردعمل اور عالمی نظام کی تشکیل نو”  کے موضوع پر منعقدہ ایک بین الاقوامی ہائبرڈ سیمینار کے دوران اس مسئلے کی مختلف جہتوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار کا انعقاد مشترکہ طور پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، اور سینٹر فار کریٹیکل پیس اسٹڈیز، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہورنےکیا تھا۔ پروگرام کی صدارت سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کی جبکہ شریک صدرچیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن  تھے۔ اہم مقررین میں ملائیشیا کے معروف ماہر سیاسیات اور انٹرنیشنل موومنٹ فار اے جسٹ ورلڈ  کے صدر ڈاکٹر چندرا مظفر، جنوبی افریقہ کے ایفرو مڈل ایسٹ سنٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نعیم جینا، ، وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین، ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء، اسلام آباد کے ڈائریکٹر ریسرچ اویس انور، اور سینٹر فار کریٹیکل پیس اسٹڈیز، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فاطمہ سجاد شامل تھے۔

مشاہد حسین نے کہا کہ حق خودارادیت کا اصول ابدی ہے اور اسے فلسطین اور کشمیر کے مظلوم عوام سے نہیں چھینا جا سکتا۔ یہ دونوں مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی نظام تین جہتوں میں تبدیلی دیکھ رہا ہے: مغرب کا زوال، چین کے عروج کے ساتھ ایشیا کا دوبارہ سر اٹھانا، اور ایک نئی سرد جنگ کا ظہور۔ کیونکہ مغرب عالمی طاقت کا اختیار ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے تین نکاتی ایجنڈے کا خاکہ پیش کیا:

سب سے پہلے امریکی اسرائیل کے جھوٹ اور جھوٹے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک میڈیا کنسورشیم کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستانی چینلز اور ہم خیال ممالک کے نیٹ ورکس کے درمیان میڈیا کوآرڈینیشن کی صورت میں ہو سکتا ہے تاکہ سچائی اور حقائق پر مبنی صورتحال کو اجاگر کیا جا سکے۔ دوئم، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بحری آپریشن کے ذریعے انسانی امداد اور انخلاء کے حق میں ووٹ دینے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ اس کے بعد پاکستان، ترکی ، انڈونیشیا  اور دیگر مسلم ممالک کی بحری افواج کا ایک فلوٹیلا غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف اقوام متحدہ کی تائید سےامدادی سامان پہنچانے  اور شہریوں کے انخلاء کا بندوبست کر سکتا ہے۔ تیسرا، ہم خیال ممالک کے رہنماؤں کو اقوام متحدہ، یورپی یونین، واشنگٹن، اور طاقت کے دیگر دارالحکومتوں کا دورہ کرنا چاہیے تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے قائم کردہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔

چندر امظفر نے کہا کہ حماس کے خلاف اسرائیلی جارحیت جنگ نہیں بلکہ قتل عام اور نسل کشی ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ سجاد نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت فلسطینیوں کے ہولوکاسٹ سے کم نہیں۔ اویس انور نے کہا کہ جیسا کہ اسرائیل نے بار بار بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور اسے اپنے مظالم کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی موجودہ ساخت اور حرکیات کے ساتھ کوئی موثر کردار ادا نہیں کر سکتا۔

نعیم جینا نے فلسطینی کاز کو اجاگر کرنے اور اسرائیلی نسل پرستانہ قبضے اور مظالم کی مذمت میں جنوبی افریقہ کی حکومت اور قیادت کے کردار کی تعریف کی۔ خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ غزہ جنگ نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کا پردہ چاک کر دیا ہے جو حماس کے سامنے بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر اس بات کی دو واضح مثالیں ہیں کہ کس طرح جارحیت پسند اپنے  مفاد کے لیے بین الاقوامی قانون کو مفلوج کر دیتے ہیں۔

ان کا خیال تھا کہ جاری بحران طویل المدّتی عالمی حرکیات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا مشرق وسطیٰ کبھی بھی پرامن نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے فوری طور پر جنگ بندی، خوراک کی فراہمی اور انسانی امداد کے ساتھ ساتھ دیرپا امن کے لیے ٹھوس مذاکرات کی ضرورت ہے۔