فلسطین اور جموں و کشمیر جیسے غیرملکی قبضے والے ممالک کے لوگوں کی سیاسی اور اقتصادی مدد کرنے ضرورت ہے،اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کاکمیشن آن پاپولیشن میں اظہار خیال

113
پاکستان کا جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کم کرنے کے لئے بات چیت پر زور

اقوام متحدہ۔26اپریل (اے پی پی):پاکستان نے کورونا وائرس کی وبا کے صدماتی حالات اور ماحولیاتی تبدیلی کےپس منظر میں فلسطین اور جموں و کشمیر جیسے غیرملکی قبضے والے علاقوں کے لوگوں کی سیاسی اور اقتصادی مدد کرنے پر زور دیاہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کے آبادی اور ترقی کے کمیشن کو بتایا کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے خاص طور پر بحران اور کشیدگی والے حالات میں غربت میں کمی پہلی ترجیح ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صحت اور اس سے متعلق دیگر سماجی مسائل سے نمٹنے کے لئے آبادی بارے حکمت عملی کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے ۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے ہنگامی انسانی اور اقتصادی امداد ضروری ہے۔انہوں نے آبادی کے محرکات کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا جیسا کہ دنیا بھر کے معاشرے 2030 کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز ) کے حصول کے لیے پرعزم اور جامع کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک تعلیم یافتہ، ہنر مند صحت مند اور بااختیار آبادی ترقی کا کلیدی محرک ہے اور ایک ایسی قوم جو جاہل اور ناخواندہ ، بیماری اور بے روزگاری کا شکار ہو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے اور وہ مسلسل بڑھتی ہوئی غربت کا شکار ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک گزشتہ 2 سالوں میں کورونا وائرس کی وبا اورقدرتی اور خودساختہ آفات کے ساتھ ساتھ خوراک، توانائی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں افراط زر کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں جس کے باعث معیشت اور لوگوں کو حیرت انگیز طور پر درپیش بیرونی مشکلات پر قابو پانے کے لیے مناسب فنڈز کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستانی مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مطالبے اور فنانسنگ فار ڈویلپمنٹ(ایف ایف ڈی)کے اعلامیے کی حمایت کی جس میں بڑی رعایتی امداد، قرضوں میں ریلیف، غیر استعمال شدہ ایس ڈی آرز کی دوبارہ تقسیم، آئی ایم ایف اور علاقائی بینکوں سے بڑی مالی اعانت اور ترقی پذیر ممالک کو بحرانوں سے نکلنے اور اپنی معیشتوں کو بحال کرنے کے قابل بنانے کے لیے ماحولیاتی مدد میں سالانہ 100 بلین ڈالر کا وعدہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہنگامی اقدامات کے علاوہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ڈیموگرافک منافع منقسمہ کی وصولی اورپائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے جامع قومی اور بین الاقوامی پالیسی کی ضرورت ہے جس میں صحت و تعلیم اور خاص طور پر خواتین کو بااختیار بنانے اور نوجوانوں کی ترقی سمیت انسانی ترقی پر توجہ مرکوز کی جائے ،پائیدار بنیادی ڈھانچے جیسے توانائی، نقل و حمل، زراعت اور ہاؤسنگ میں مناسب سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جو ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے ،

اقتصادی ترقی کو یقینی بنا سکتی ہے اور صنعت کاری اور پائیدار ترقی کی بنیاد رکھ سکتی ہے،ایک منصفانہ بین الاقوامی ٹیکس نظام سمیت ایک مساوی بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچہ کی تعمیر،عالمی تجارتی نظام میں اصلاحات کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو اشیا اور دیگر مصنوعات کے لیے عالمی منڈیوں تک ترجیحی اور مکمل رسائی کی اجازت دی جائے تاکہ برآمدات پر مبنی نمو کو ممکن بنایا جا سکے، صنعتی اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل تقسیم پر قابو پانے اور ترقی پذیر ممالک سے غیر قانونی مالیاتی بہاؤ میں ہر سال اربوں کے اخراج کو روکنے کی ضرورت ہے۔
.