نیویارک ۔17جولائی (اے پی پی):پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کہا ہے کہ وہ فلسطین اور جموں و کشمیر کے حل طلب مسائل جیسے پیچیدہ اور باہم جڑے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کثیر الجہتی تعاون پر "مضبوطی سے” یقین رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منگل کو’’زیادہ منصفانہ، جمہوری اور پائیدار عالمی نظام کے مفاد میں کثیر الجہتی تعاون‘‘پر ایک بحث کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل نمائندے عثمان جدون نے کہا کہ ہم کسی بھی یک قطبی، دو قطبی یا نام نہاد کثیر قطبی دنیا کو مسترد کرتے ہیں جو چند طاقتور ریاستوں کے زیر تسلط ہے، اس طرح کے ورلڈ آرڈر ریاستوں کی خود مختار مساوات کے اصول سے متصادم ہے۔
بحث جولائی کے لیے 15 رکنی کونسل کے صدر روس نے طلب کی تھی۔ پاکستانی ایلچی نے کہا کہ آج ہمیں منظم جرائم، بڑھتی ہوئی غربت،بڑھتے ہوئے ماحولیاتی و موسمیاتی اثرات، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی خلاف ورزیوں، عظیم طاقتوں کی دشمنیوں، ایک نئی عالمی ہتھیاروں کی دوڑ اور تنازعات ، دہشت گردی، نفرت اور اسلامو فوبیا کو پھیلانے سے پیدا ہونے والے متعدد خطرات کا سامنا ہے۔ عثمان جدون نے کہا کہ ایک منصفانہ، جمہوری اور پائیدار دنیا کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں، خود ارادیت، طاقت کے استعمال کے عدم استعمال ، ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام اور ایکدوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی مسلسل پابندی پر ہونی چاہیے۔حالیہ اور جاری تنازعات کے تناظر میں ان اصولوں پر سختی سے عمل کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔
اس حوالے سے سفیر جدون نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فلسطین اور جموں و کشمیر سے متعلق اپنی ہی قراردادوں پر عالمی سطح پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔عالمی نظم و ضبط، امن اور استحکام کو فروغ دینے کی ہماری کوششیں اس وقت تک ناکام ہو جائیں گی جب تک کہ ہم عالمی سماجی و اقتصادی ترقی کو حاصل نہیں کر لیتے، جو چارٹر کا بنیادی مقصد ہے ،انہوں نے کہا کہ کووڈ -19وبائی بیماری، جاری تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو شدید معاشی بدحالی میں ڈال دیا ہے۔عثمان جدون نے زور دیا کہ گلوبل ساؤتھ میں ایک ارب لوگوں کے مصائب کو کم کرنے اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز ) کو حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی، تجارتی اور ٹیکنالوجی کے فن تعمیر میں جامع اصلاحات ضروری ہیں ۔
آخر میں، پاکستانی ایلچی نے کثیر جہتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے تجویز دیں جن میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ایسے حالات کا سالانہ جائزہ تیار کرنا چاہیے جہاں چارٹر کے اصولوں اور کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی ہو، بڑی فوجی طاقتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو دور کرنا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو فعال طور پر تنازعات کے حل کو فروغ دینا چاہیے، بشمول تنازعات کی بنیادی وجوہات، جیسے غیر ملکی قبضے اور حق خود ارادیت کو دبانا،
اقوام متحدہ کے سربراہ کو چارٹر آرٹیکل 99 کے تحت اپنے اختیار کو زیادہ زور سے استعمال کرنا چاہیے اور عدالتی میکانزم، خاص طور پر عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے ) کے دائرہ اختیار کو مکمل طور پر استعمال کرنا چاہیے، اور غیر مستقل ارکان کی تعداد کو بڑھانا از سر نو تشکیل شدہ کونسل میں سلامتی کونسل کی نمائندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ نئے مستقل ارکان کو شامل کرنے سے خودمختار مساوات اور مساوات کے اصول ختم ہو جائیں گے اور کونسل مزید مفلوج ہو جائے گی۔