اسلام آباد۔1نومبر (اے پی پی):نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے معاملے پر پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک نے جامع اور یکساں موقف اختیار کیا ہے، غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے، اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کرے اور فلسطینیوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی فوری فراہمی یقینی بنائی جائے۔
بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں بے گناہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینیوں کے لئے مدلل انداز میں آواز اٹھانے پر ایوان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس طرح مسئلہ کشمیر دیرینہ اور حل طلب تنازعہ ہے اسی طرح فلسطین بھی دیرینہ حل طلب تنازعہ ہے، مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آج فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں، یہ ہمارا مذہبی اور قومی فریضہ ہے جس طرح سے فلسطین کے عوام اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے بعد ظلم و استبداد کا شکار ہیں، سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اس کی مذمت کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، ان کی ہر ممکن مدد کرنا قومی فریضہ ہے اور اہمیت کا حامل ہے، اسرائیل گزشتہ 17 سال سے غزہ پر قابض ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل 7 اکتوبر کے بعد وہاں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے جس طرح بچوں اور عورتوں کو شہید کیا جا رہا ہے اس کی موجودہ دور میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ یونیسف کی ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ گزشتہ دو ہفتہ سے جو ظلم ہو رہا ہے اس سے غزہ قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مطابق 8500 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، ان میں ساڑھے تین ہزار سے زائد بچے شامل ہیں، 25 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں، 222 سکولوں اور ایک لاکھ 80 ہزار مکانوں کو تباہ کیا گیا، بجلی، پانی اور خوراک ددستیاب نہیں ۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ہسپتالوں پر 35 کے لگ بھگ حملے کئے ہیں، وہاں لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں، زخمیوں کی تیمارداری کرنے والا کوئی نہیں، علاج کی سہولیات دستیاب نہیں، نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لئے یہ صورتحال باعث تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ جبالیہ پر اسرائیلی حملے میں سینکڑوں شہادتیں ہوئی ہیں، اسرائیلی حملے صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ ان کا دائرہ کار مقبوضہ بیت المقدس سمیت دیگر علاقوں تک بڑھا دیا گیا ہے، مصدقہ اطلاعات کے مطابق شہادتوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے، اس معاملے پر پاکستان نے فعال کردار ادا کیا ہے، ہم نے دو ٹوک بیان دیا، حکومت اور ایوان بالا نے بھی اس حوالے سے واضح پیغام دیا ہے، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ٹیلی فون کیا، میں خود اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ سے بات کی اور سعودی عرب سمیت دیگر ہم خیال ممالک سے مل کر اس حوالہ سے یکساں موقف اختیار کیا، پاکستان اور سعودی عرب نے او آئی سی کا مشترکہ اجلاس بلایا۔
انہوں نے کہا کہ جدہ میں غیر معمولی اجلاس میں تمام ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی، اجلاس میں اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے، غزہ سمیت متاثرہ علاقوں میں انسانی بنیادوں پر فوری امداد فراہم کی جائے، قیدیوں کو فوری طور پر رہا اور امن عمل شروع کیا جائے، اسرائیل نے ظلم و بربریت کی مثال قائم کی ہے، اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور اخلاقی اقدار کو پامال کیا ہے، 1967 میں قرارداد نمبر 242 اتفاق رائے سے منظور کی گئی تھی، اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں اسرائیل کے قبضہ کو ناجائز قرار دیا گیا۔
دوسری قرارداد 478 اہمیت کی حامل ہے جس میں کہا گیا کہ جن ممالک نے اپنے سفارت خانے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کئے ہیں، وہ وہاں سے واپس اسرائیل منتقل کریں۔ تیسری قرارداد 2334 ہے جس میں مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہ اکہ اسرائیل نے ان قراردادوں کی پاسداری نہیں کی اور نہ ہی اس کے حامیوں نے ان قراردادں پر عملدرآمد پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پالیسی کے کلیدی نکات میں یہ شامل ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں سے انخلاء کرے، انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو جس کا دارالخلافہ القدس الشریف ہو۔ انہوں نے کہہ اکہ ہم سب فلسطینی عوام کے لئے آزادی، امن اور روشنی کے خواہاں ہیں، امید ہے کہ انصاف ظلم و جبر پر حاوی ہوگا اور عالمی ضمیر تنگ نظری پر مبنی مفادات کو شکست دینے کے قابل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور عوام کی جانب سے پھر اس عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔