اسلام آباد۔18اپریل (اے پی پی):فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل مکمل کر لیے ،کیس کی آئندہ سماعت 28 اپریل کو ہوگی ۔ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ کوجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی آئینی بینچ نے کی ۔ دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ مارشل لاء کے دور میں 1973 کے آئین میں بہت سی چیزیں شامل کی گئیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والی جمہوری حکومتوں نے مزید ترامیم کے ذریعے ایسی تمام چیزوں کو ختم کیا لیکن کسی حکومت نے آرمی ایکٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئین فوجی عدالتوں کی منظوری دیتا ہے۔ نہ صرف جنگ کے وقت بلکہ امن کے دوران بھی کورٹ مارشل آئینی طور پر منظور شدہ چیز ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 10 میں کی گئی وضاحت کے مطابق فوجی عدالتوں میں فیئر ٹریل چلائے جاتے ہیں۔ پریزائیڈنگ افسران کو قانون اور حقوق کا علم ہوتا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی کے استفسار پر خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی پک اینڈ چوز نہیں ہے۔ تمام مشتبہ افراد سے الزام کی نوعیت کے مطابق نمٹا جاتا ہے اور مقدمات کی نوعیت کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالتوں یا فوجی عدالتوں میں بھیجے جاتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 202 کے مطابق صرف دو قسم کی عدالتیں ہیں ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ۔آئینی بنچ نے کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کر دی۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=584289