لاہور۔19اکتوبر (اے پی پی):گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ فیصلے وزیر اعلی کی بجائے کابینہ کرے اور اختیارات فرد واحد کی بجائے کابینہ کے پاس ہونے چاہئیں، اگر سیاسی بنیادوں پر کام کرنا ہو تو وزیر اعلی ہائوس سے آنیوالا ڈیلی بزنس کا95 فیصد اسی روز منظوری کے ساتھ واپس نہ بھیجوں’حکومتی قانون سازی کے مسودوں کو واپس بھیجنے میں گورنر ہائوس کا کردار غیر جانبدار ہے’مجوزہ مسودے خامیوں سے بھرے ہوئے تھے اور ان میں ضابطہ اخلاق کی کمی تھی جبکہ ان میں بہت سی قانونی پیچیدگیاں بھی تھیں،تمام تر توجہ عوام کے حقوق اور آئین پر مرکوز ہے۔
وہ اے پی پی سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔گورنر پنجاب نے کہا کہ گورنر کی ذمہ داری ہے کہ آئین کی پاسداری کیلئے اپنا کردار ادا کرے،پنجاب اسمبلی سے آنے والے بیسیوں بلوں پر فوری دستخط کر دئیے جبکہ جن بلوں میں کمی دیکھی انہیں بہتری کی تجاویز کے ساتھ واپس بھیجا،متعدد بلزقانونی آرا کے بغیر گورنر ہا ئوس بھیج دیئے جاتے ہیں جو کہ درست نہٰیں،اکثر بلوں میں انگلش کی بہت غلطیاں ہوتی ہیں،
وزیر اعلی ہائوس کا 90 فیصد ڈیلی بزنس اسی روز منظوری کے ساتھ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں تعلیم کے ساتھ تربیت اور کردار سازی کی بہت ضرورت ہے، مری میں ہونیوالی وائس چانسلرز کانفرنس میں ماحولیات،ویمن ایمپاورمنٹ سمیت 7 شعبوں میں کنسورشیم بنانے کی منظوری دی گئی ہے،نئی یونیورسٹیوں کا قیام چھان بین کے عمل کے بعد آناچاہیے، کوشش کر رہے ہیں کہ یونیورسٹیوں کی تمام بڑی پوسٹوں پر ریگولر بنیادوں پر تقرریاں ہوں۔
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے کہا کہ اس وقت واویلا کیا جا رہا ہے کہ گورنرپنجاب اسمبلی کے پاس کردہ بلوں پر دستخط نہیں کر رہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔پنجاب اسمبلی سے آنے والے متعدد بل لا منسڑی،متعلقہ محکموں،صوبائی کابینہ اور لیگل آرا کے بغیر ہی گورنر ہا ئوس بھیجے جاتے ہیں جو کہ غلط طریقہ ہے،بیسیوں بلوں کو فوری طور پر پاس کیا جبکہ جن میں کمی دیکھی انہیں بہتری کی تجاویز کے ساتھ واپس بھیجا لیکن جس سپرٹ سے واپس بھیجتے ہیں وہ سپرٹ وہاں نہیں ہے وہاں تو خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ گورنر کی تجاویز کے بغیر ہی بل پاس ہو گیا۔
گورنر نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ وزیر اعلی کی بجائے کابینہ فیصلے کرے اور اختیارات فرد واحد کی بجائے کابینہ کے پاس ہوں اس سے کئی قباحتیں بھی دور ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی(روڈا)کا بل اس تجویز کے ساتھ واپس کیا کہ اس بورڈ میں کوئی ایک بھی خاتون ممبر نہیں جبکہ ویمن ایکٹ کے تحت ایک خاتون ممبر کا ہونا ضروری ہے اسی طرح کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن میں جس کو بھی چئیرمین بنایا جائے اسے MP 1کا سٹیٹس دیاجائے تاکہ وہ قانونی دائرہ کار میں رہیں، یہ نہ ہو کہ کل کو کسی کو نوازنے کیلئے سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے کا فائدہ دید یا جائے،لوکل گورنمنٹ بل اس لئے واپس بھیجا گیا کیوں کہ اس میں شہری اور دیہی تفریق کو ختم کیا جا رہا ہے جبکہ دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کے تقاضوں میں فرق ہے ،
دوسری اس میں کمی یہ تھی کہ لوکل گورنمنٹ میں من پسند افسران کو سنیارٹی کے بغیر لگانے کا اختیار دیا جا رہا ہے جس سے خرابی ہو سکتی ہے چونکہ ہمارا کام ان بلوں کو باریک بینی سے پڑھنا اور متوجہ کرنا ہے اور وہ ہم کر رہے ہیں۔گورنر پنجاب نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت یونیورسٹیوں میں جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے۔ماحولیات، ویمن امپاورمنٹ ،تعلیمی اداروں میں منشیات کا انسداد ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اورکردار سازی سمیت سات (7) شعبوں میں کنسورشیم بنائے جارہے ہیں،یہ کنسورشیم اکیڈیمیہ اور انڈسٹری کے درمیان رابطہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے،
صنعتی شعبے کے ساتھ اشتراک سے بھی کنسورشیم بنے گا۔انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوان ہی پاکستان کا مستقبل ہیں انہیں بہتر ماحول اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی درسگاہوں میں منشیات کے استعمال کی شکایات ہیں جس کی روک تھام کے لئے تعلیمی اداروں میں بھی کنسورشیم بنانے جا رہے ہیں۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ دنیا میں ہر جگہ یونیورسٹیوں کی اپنی پولیس ہوتی ہے اس کے حل کے لیے بین الاقومی معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے جامعات کی اپنی پولیس بنانے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے سٹیئرنگ کمیٹیاں تشکیل دیدی گئی ہیں جبکہ کنسورشیمز کے ٹی او آرز بھی طے کر لئے گئے ہیں۔
بلیغ الرحمن نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس یونیورسٹیوں میں ماہر اور تجربہ کار افراد موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بہت بڑا مسئلہ ہے جبکہ خواتین کی تعلیم وتربیت بھی بہت ضروری ہے،سائنس کی ترقی کے بغیر قوموں کا آگے جانا ممکن نہیں ۔انہوں نے کہا کہ نئی ٹیکنالوجی آ رہی ہے جیسے کووڈ کے دوران دنیا نے مزید نئی راہیں متعارف کرائی ہیں اسی لئے ایچ ای سی اور پی ایچ ای سی سے کہا ہے کہ نئے کورسز کی منظوری میں دیر نہ لگائیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ سے نئی یونیورسٹیوں کے قیام میں بہت ساری چیزوں کو بائی پاس کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گڈ گورننس کیلئے ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں کی تمام پوسٹوں پر مستقل بنیادوں پر تقرری ہونی چاہئے نہ کہ ان پوسٹوں پر کنٹرکٹ ملازمین کو رکھا جائے۔انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کاسب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے جس کی زندہ مثال حالیہ سیلاب ہیں۔