فیصل آباد۔ 21 دسمبر (اے پی پی):ڈویژنل ڈائریکٹر محکمہ زراعت توسیع فیصل آبادچوہدری عبدالحمید نےکاشتکاروں کوسورج مکھی سمیت دیگر زرعی اجناس کا بیج محکمہ زراعت کے توسیعی عملہ کی مشاورت سےبااختیار ڈیلرز سے خریدنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے اے پی پی کو بتایا کہ کاشتکارسورج مکھی و دیگر اجناس کے بیج کی خریداری کے موقع پر دانشمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے منظور شدہ اور اچھی شہرت کے حامل اداروں سے تصدیق شدہ بیج کی خریداری یقینی بنائیں تاکہ انہیں اچھی فصل مل سکے بصورت دیگر ناقص بیج کے استعمال سے انہیں بھاری مالی نقصان کا سامناکرناپڑسکتاہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی نجی کمپنیاں اہم فصلوں کے بیج فروخت کرتی ہیں جن میں سورج مکھی کی دوغلی اقسام کے بیج بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ شرح بیج کا انحصار زمین کی قسم، بیج کی روئیدگی، وقت کاشت اور طریقہ کاشت پر ہوتاہے۔انہوں نے کہاکہ دوغلی اقسام کا ایسا بیج استعمال کرناچاہیے جس کے اگاؤ کی شرح کم از کم 90فیصد ہو۔انہوں نے بتایا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں سورج مکھی کی بہاریہ کاشت یکم جنوری سے شروع ہو گی جس کے لئے منظور شدہ اقسام کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سورج مکھی کی کاشت کے شیڈول کے مطابق بہاولپور، رحیم یار خان، خانیوال، ملتان، وہاڑی، بہاولنگر کے اضلاع میں سورج مکھی کی بہاریہ کاشت یکم سے 31 جنوری تک، ڈی جی خان، مظفر گڑھ،لیہ،لودھراں،راجن پور، بھکرکے اضلاع میں 10جنوری سے 10 فروری تک، فیصل آباد، جھنگ، میانوالی،سرگودھا، خوشاب، ساہیوال اور اوکاڑہ کے اضلاع میں 15 جنوری سے 15 فروری تک، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، منڈی بہاؤالدین،قصور،شیخوپورہ،ننکانہ صاحب، نارووال کے اضلاع میں یکم فروری سے 25 فروری تک اور اٹک، راولپنڈی، گجرات، چکوال کے علاقوں میں یکم فروری سے 25 فروری تک کی جا سکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ سورج مکھی کی بھرپور پیداوار حاصل کرنے کے لئے بیج کی شرح 20سے25کلوگرام فی ایکڑ ہونی چاہیے۔
انہوں نے بتایاکہ کاشتکارسورج مکھی کی ہائبرڈ اقسام ہائی سن 33، ہائی سن 39، اگورہ4،این کے 278، ڈی کے 4040، 64A93، ایف ایچ 331 کاشت کرکے بہتر پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بھاری میرازمین سورج مکھی کی کاشت کے لئے انتہائی موزوں ہے تاہم سیم زدہ اور زیادہ ریتلی زمین میں سورج مکھی کی کاشت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی خوردنی تیل کی ملکی ضروریات کا صرف 34 فیصد حصہ پیدا کررہاہے اور 66 فیصد حصہ درآمد کرنے پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتاہے لہٰذا کاشتکاروں کو خوردنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تیلدار اجناس کاشت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جن کا دورانیہ 100 سے 110روز تک ہوتاہے اور ان کی پیداواری لاگت بھی کم ہوتی ہے لہٰذا اگر کاشتکار زیادہ سے زیادہ تیلدار اجناس کاشت کریں تو نہ صرف انسانوں کے لئے حیاتین اے، بی،کے کی ضرورت کوپوراکیاجاسکتاہے بلکہ کم مدت کی فصل ہونے کے باعث اسے 2بڑی فصلوں کے درمیانی عرصہ جنوری وفروری اور جولائی و اگست میں بآسانی کاشت کیا جاسکتاہے۔
انہوں نے بتایاکہ پاکستان کی آبادی میں مسلسل اضافہ کے باعث خوردنی تیل کی درآمد میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہاہے اس لئے وقت کی ضرورت ہے کہ تیلدار فصلوں کی کاشت کو فروغ دیاجائے تاکہ درآمد پر انحصار کم سے کم کیاجاسکے۔