اسلام آباد۔23اگست (اے پی پی):قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں "ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت پر مبنی معدنیات کی تلاش سے متعلق بین الاقوامی ورکشاپ” کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد معدنی وسائل کی تلاش کے لیے جدید، ڈیٹا پر مبنی طریقہ کار کو فروغ دینا تھا۔ورکشاپ میں بین الاقوامی ماہرین، محققین اور صنعت سے وابستہ افراد نے شرکت کی جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے معدنیات کی تلاش کا عمل نہ صرف تیز تر اور مؤثر ہو سکتا ہےبلکہ یہ طریقہ کار زیادہ پائیدار، سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش اور بین الاقوامی تعاون کے لیے سازگار بھی بن سکتا ہے۔
ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ممتاز محمد شاہ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ارتھ سائنسز اور چائنا-پاکستان جوائنٹ ریسرچ سینٹر (سی پی جے آر سی) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ دنیا بھر میں معدنیات کی تلاش کی صنعت ایک بڑی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہی ہے،جدید ٹیکنالوجی اور ڈیٹا پر مبنی طریقہ کار، معدنیات کی تلاش اور ترقی کے روایتی طریقوں کو تبدیل کر رہے ہیں۔پاکستان جیسے ملک کے لیے جہاں معدنی وسائل کی کمی نہیں لیکن ایک مربوط قومی ڈیٹا بیس کی عدم موجودگی ہے یہ تبدیلی نہایت ضروری اور بروقت ثابت ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر ممتاز محمد شاہ نے کہا کہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ جدید ارضیاتی سائنسی اوزاروں کو مصنوعی ذہانت اور بہتر ڈیٹا انضمام کے ساتھ ملایا جائے۔
ان ٹیکنالوجیز کو اپنا کر پاکستان معدنیات کی تلاش کو روایتی انداز سے ہٹ کر زیادہ درست، مؤثر اور پائیدار بنا سکتا ہے۔یہ ورکشاپ پاکستان میں مصنوعی ذہانت پر مبنی معدنیات کی تلاش کی صلاحیت کو فروغ دینے اور اس شعبے میں بین الاقوامی تعاون کی راہیں ہموار کرنے کی جانب ایک اہم قدم تھا۔پروفیسر یونگ ژی وانگ جیلن یونیورسٹی چین نے کہا کہ آج کل کے جیوسائنسی (ارضیاتی سائنسی) سروے بہت بڑی مقدار میں ڈیٹا پیدا کرتے ہیں جیسے کہ ارضیاتی ، جیو فزیکل ، جیو کیمیکل اور ریموٹ سینسنگ سے حاصل شدہ معلومات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ان ڈیٹا سیٹس کو مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ کے ساتھ جوڑا جائے تو یہ کافی پیچیدہ اور بھاری محسوس ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ٹیکنالوجیز مختلف فارمیٹس میں موجود ڈیٹا کو خودکار طریقے سے فلٹر، تشریح اور تجزیہ کر سکتی ہیں۔کئی مقررین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ ٹیکنالوجیز دیگر شعبوں کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں جیسے کہ فیلڈ ورک، لاجسٹکس، سافٹ ویئر اور ڈیٹا سائنس، خاص طور پر معدنیات کی تلاش کے منصوبے شامل ہیں۔یہ منصوبے اکثر سڑکیں، بجلی اور مواصلاتی نیٹ ورک بھی ساتھ لاتے ہیں، جو عموماً اُس وقت بھی برقرار رہتے ہیں جب کھدائی مکمل ہو جاتی ہے اور ٹیمیں واپس چلی جاتی ہیں۔
اس ایونٹ میں کئی ماہرین کی تحقیقی کاوشیں شامل تھیں، جن میں ڈاکٹر عاطف بلال، جیلن یونیورسٹی، چین؛ ڈاکٹر خالد امین خان، ہیڈ آف ایکسپلوریشن، او جی ڈی سی ایل، ڈاکٹر کیترینا ہلینیانا، جیلن یونیورسٹی، چین؛ ڈاکٹر فہیم اللہ، میڈو، ڈاکٹر شیٹنگ شینگ، جیلن یونیورسٹی، چین، پروفیسر جیانگتاؤ تیان، سنکیانگ اکیڈمی آف جیولوجیکل ریسرچ، چین، ڈاکٹر فہد، یو اے جے کے اور ڈاکٹر سلیم، یو اے جے کے شامل تھے۔منتظمین کا کہنا تھا کہ یہ ورکشاپ پاکستان اور چین کے درمیان جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے معدنیات کی تلاش میں بڑھتے ہوئے تعاون کی علامت ہے۔