قابل تجدید توانائی کے شعبے میں جدت اور مہارت کا علاقائی اشتراک جنوبی ایشیا کو فوسل فیول پر انحصار کو اجتماعی طور پر کم کرنے اور سر سبز اور پائیدار مستقبل کے لیے مدد فراہم کرسکتا ہے،محمد اسحاق ڈار

119
Deputy Prime Minister
Deputy Prime Minister

اسلام آباد۔10جنوری (اے پی پی):نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ، سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے زور دیا ہے کہ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں جدت اور مہارت کا علاقائی اشتراک جنوبی ایشیا کو فوسل فیول پر انحصار کو اجتماعی طور پر کم کرنے اور سر سبز اور پائیدار مستقبل کے لیے مدد فراہم کرسکتا ہے۔

انہوں نے اقتصادی بحالی، موسمیاتی تبدیلی اور تکنیکی خلل سمیت موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کو فروغ دینے پربھی زور دیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سائوتھ ایشین فیڈریشن آف اکائونٹنٹس کی کانفرنس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی استحکام کے لیے توانائی کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران طویل عرصے سے ایک چیلنج رہا ہے لیکن یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا میں قابل تجدید توانائی کی سب سے بڑی صلاحیت ہے جس میں ہم شمسی اور ہائیڈرو پاور کے ذریعے انرجی مکس کو متنوع بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے ے کے لیے ایک مضبوط گورننس کی ضرورت جیسے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے۔پاکستان نے اصلاحات اور تبدیلی کے سفر کا نقشہ بنایا ہے جس کا مقصد ہماری معیشت کو مستحکم کرنا اور پائیدار ترقی کو فروغ دینا ہے۔ ہماری توجہ ایک ایسا ماحولیاتی نظام بنانے پر ہے جو سرمایہ کاری کی حمایت کرے، برآمدات کو فروغ دے اور انسانی سرمائے کی ہماری صلاحیت کو بروئے کار لائے۔نائب وزیر اعظم نے کہا کہ اس فورم میں بصیرت اور بہترین طریقوں کا اشتراک حصہ لینے والے ممالک کو پورے خطے میں زیادہ موثر طرز حکمرانی کی جانب ایک راستہ طے کرنے میں مدد دے گا اور اس کانفرنس کے ہر سیشن میں جنوبی ایشیا کے معاشی مستقبل کے ایک اہم پہلو کو اجاگر کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تزویراتی تجارتی پالیسی کا فریم ورک، توانائی کے تنوع کے اقدامات اور ڈیجیٹل تبدیلی کا ایجنڈا ایک لچکدار معیشت کی تعمیر کے لیے پاکستان کے عزم کی چند مثالیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی اصلاحات اور گورننس وقت کی ضرورت تھی اور اب یہ اختیاری نہیں بلکہ ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا "پاکستان میں اس کا مطلب ساختی رکاوٹوں کو دور کرنا، ہر سطح پر احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی ٹیکس پالیسی، پبلک فنانشل مینجمنٹ اور ریگولیٹری فریم ورک میں جاری اصلاحات کا مقصد کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ کہ جنوبی ایشیا تجارت کے لحاظ سے سب سے کم مربوط خطوں میں سے ایک ہے۔بین العلاقائی تجارت ہمارے کل تجارتی حجم کے پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں ہم اپنی برآمدی صلاحیت کو غیر مقفل کرنے کے لیے ٹیرف اور نان ٹیرف دونوں تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کہ ترجیحی تجارتی معاہدوں، لاجسٹکس میں اصلاحات اور بارڈر مینجمنٹ جیسے اقدامات اسی سمت میں اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس فورم پر باہمی بات چیت زیادہ متحد اور خوشحال جنوبی ایشیا کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اکاؤنٹنسی کا پیشہ ٹیکنالوجی اور عالمگیریت میں ترقی کی وجہ سے تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔پاکستان کے پاس اس شعبے میں بہت زیادہ ٹیلنٹ ہے اور ICAPs، ڈیجیٹل ایشورنس پروگرام اور اکاؤنٹنسی سروسز کی ایکسپورٹ جیسے اقدامات اس تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ تاہم بین الاقوامی معیارات کے مطابق ڈھالنے، ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنانے اور عالمی نیٹ ورکس کی تعمیر جیسے چیلنجز برقرار ہیں،اس سیشن نے اس حوالے سے ایک قابل قدر پلیٹ فارم فراہم کیا جو فیلڈ پروفیشنلز کو ڈیجیٹل اکانومی میں ترقی کرنے کے قابل بنائے گا۔

انہوں نے کہا کہ قوموں کو اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ قومی سرحدوں کو عبور کر رہے ہیں چاہے وہ معاشی بحالی، موسمیاتی تبدیلی اور تکنیکی رکاوٹ ہو۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ عالمی رجحان تھے جو علاقائی تعاون کا مطالبہ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مشترکہ تاریخ کے ثقافتی تعلقات اور معاشی باہمی انحصار کے ساتھ جنوبی ایشیا کو اجتماعی حل نکالنے کے لیے منفرد حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہاکی یہ کانفرنس مکالمے اور مشترکہ عمل کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ یہ خیالات کے تبادلے، شراکت داری اور جدت کو فروغ دینے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ یہ نہ صرف اپنے چیلنجوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری طاقت اتحاد میں ہے اور مستقبل آج کے فیصلوں پر منحصر ہے۔ اس کانفرنس کے نتائج زیادہ مضبوط، خوشحال اور لچکدار جنوبی ایشیا کے لیے سنگ میل کے طور پر کام کریں گے۔