قومی اسمبلی ،انتخابات کیلئے مردم شماری ضروری ہے، ہمیں نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے،وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر

106
قومی اسمبلی ،انتخابات کیلئے مردم شماری ضروری ہے، ہمیں نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے،وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر

اسلام آباد۔5اپریل (اے پی پی):وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ اس ملک میں عدلیہ آزاد ہے لیکن عدل ابھی قید ہے، نیب اور اینٹی کرپشن کے محکموں کو گذشتہ دور میں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا، انتخابات کیلئے مردم شماری ضروری ہے، ہمیں نظریہ ضرورت کی نہیں بلکہ نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پارلیمان نے آج سے 50 سال پہلے 10 اپریل 1973ء کو اس ملک و قوم کو متفقہ آئین دیا جس کے ابتدائیہ میں لکھا گیا کہ ریاست اپنے اختیارات منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی، ریاست کا اقتدار اعلیٰ عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپا گیا، پاکستان بننے کے بعد پاکستان پر پہلا ڈاکہ ڈالا گیا جو 24 سال جاری رہا، عوام کے حق حاکمیت میں رکاوٹ ڈالی گئی تو اس کے نتیجہ میں ملک ٹوٹا، ہم نظریہ ضرورت، فوجی آمریت سے برسر پیکار رہے جن کا آپس میں گٹھ جوڑ رہا، جن کا مقصد عوام کا حق حاکمیت چھیننا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمیں ایک ایمپیریل سپریم کورٹ کا سامنا ہے،2009ء تک آمریت کا ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رہا، یہ گٹھ جوڑ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے شروع ہو کر جنرل مشرف کو تین سال دینے تک جاری رہا، اس کے بعد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا، پھر عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو ایسی بنیاد پر نااہل کیا جس میں کسی سطح پر یہ معاملہ زیر بحث نہیں آیا، ان کے خلاف پانامہ کیس میں اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر انہیں تاحیات نااہل قرار دیا گیا، آئین کے آرٹیکل 10 میں شفاف ٹرائل کا حق شامل ہے لیکن یہ نہیں دیا گیا جبکہ اس سماعت کے دوران آرٹیکل 66 کو بھی روندا گیا کہ کوئی رکن اس ایوان میں کوئی بات کرتا ہے تو اس پر کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہو سکتی، اس کے بعد انہیں پارٹی صدارت سے ہٹانے کیلئے رائٹ ٹو ایسوسی ایشن کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا، 2018ء کے سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سے انتخابی نشان کا حق چھین لیا گیا،

توہین عدالت میں سینٹ سے نہال ہاشمی کو نااہل قرار دیا گیا، طلال چوہدری، دانیال عزیز کو سزا ئیں دی گئی ،پنجاب کے ارکان اسمبلی کو عدالتوں میں بے عزت کیا گیا، ملک بھر میں غریبوں کی جھونپڑیاں گرائی گئیں اور بنی گالہ کو ریگولرائز کیا گیا، کراچی میں ایک بڑی نجی ہائوسنگ سوسائٹی اور شاہراہ دستور پر کھڑی دو بڑی عمارتوں کو ریگولر ہوتے دیکھا، نیب اور اینٹی کرپشن کے ہاتھوں اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے لئے گئے سوموٹو نوٹسز کا اس ملک کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس کا پاکستان کو نقصان ہی ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ فل کورٹ کا تھا، اس میں کیا امر مانع ہے کہ اس معاملہ میں شفافیت آئے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آئین 90 دن میں انتخابات کرانے کی بات کرتا ہے تو تمام اکائیوں کے ساتھ یکساں سلوک کی بات بھی کرتا ہے، اگر پنجاب میں الیکشن حق ہے تو کیا کے پی کے میں نہیں، یہ آئین یہ بھی کہتا ہے کہ انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں، دو صوبوں میں اگر گذشتہ مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن ہوں تو اور دو صوبوں میں اور وفاق میں نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات ہوں تو کیا اس سے ایک نیا تنازعہ نہیں کھڑا ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ 2017ء کے الیکشن ایکٹ میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن کرانے کی بات کی گئی ہے جبکہ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی حلقہ میں قدرتی آفت یا کسی دیگر وجہ سے اس دن پولنگ نہیں ہو سکتی تو اس کیلئے کوئی اور دن بھی مقرر کیا جا سکتا ہے،

آئین الیکشن صاف شفاف کرانے کا بھی کہتا ہے، ہمیں بار بار آرٹیکل 190 پڑھایا جاتا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک آئینی حیثیت ہے اس کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ نے اس دن انتخابات کرانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نظریہ ضرورت کی نہیں بلکہ نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے، عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ فل کورٹ بنایا جائے، پاکستان کی طاقت پاکستان کے عوام ہیں، آئین سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کا خالق ہے، اس پارلیمان نے اپنے قانون سازی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے ایک قانون پاس کیا اس کا احترام ہونا چاہئے،

یہ ایوان سب سے زیادہ خود مختار ہے، یہاں آنے والا ہر نمائندہ لاکھوں ووٹروں کا منتخب کردہ ہے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں میں یہ شفافیت نظر نہیں آئی، اس قوم نے عوام کے حق حاکمیت کیلئے قربانیاں دی ہیں، سیاستدانوں نے جانیں دیں، جیلیں کاٹیں، ہم تصادم نہیں چاہتے، آج جو تنائو اور خرابی ہے اس کی بنیاد 2017ء سے شروع ہوتی ہے جس میں عوام کی حاکمیت میں غیر قانونی مداخلت کی گئی، اس طرح کی کسی اور مداخلت کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے ،اس کا ازالہ فل کورٹ اور 2023ء کا انتخاب ہر لحاظ سے غیر آئینی مداخلت سے پاک اور صاف شفاف بنیادوں پر ایک ساتھ ساری اکائیوں میں ہو، اسی طرح ہم 50 سال گزرنے کے بعد اپنے اسلاف سے کہہ سکیں گے کہ ہم نے اس آئین کا دفاع کیا ہے۔