قومی اسمبلی ، داخلہ ڈویژن کیلئے ایک کھرب،87 ارب،20 کروڑ،6 لاکھ،35 ہزارروپے سے زائد مالیت کے 11 مطالبات زرکی منظوری

95

اسلام آباد ۔ 27 جون (اے پی پی) قومی اسمبلی نے داخلہ ڈویژن کیلئے ایک کھرب،87 ارب،20 کروڑ،6 لاکھ،35 ہزارروپے سے زائد مالیت کے 11 مطالبات زرکی منظوری دے دی۔ ہفتہ کوایوان میں وفاقی وزیرصنعت وپیداوار حماداظہر نے مطالبات زرکی تحاریک پیش کیں۔ اپوزیشن کی طرف سے ان پرکٹوتی کی کئی تحاریک پیش کی گئیں جن کی وفاقی وزیرنے مخالفت کی۔کٹوتی کی تحاریک پر بحث سمیٹے ہوئے رکن قومی اسمبلی شوکت علی نے کہا کہ ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ خیبرپختونخوا کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسلام آباد کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے سب سے زیادہ زور مزدور طبقہ پر دیا ہے۔ ان کے لئے پناہ گاہوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انڈسٹریز کو مضبوط بنانے کے لئے بڑے اقدامات کئے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں سٹامپ ٹیکس کو کم کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا اور اربوں روپے قومی خزانہ میں جمع کیا گیا۔وفاقی دارلحکومت میں مسائل کے حل کے لئے ماسٹر پلان ترتیب دیا گیا ہے اور بہت جلد اس پر عملدرآمد شروع ہوگا۔ اسلام آباد میں جرائم کی شرح بالخصوص سٹریٹ کرائم میں 29 فیصد کمی آئی ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ پہلے سے تھا۔ 74 فیصد کیمرے ناکارہ تھے۔ اب تمام کیمرے ورکنگ کنڈیشن میں ہیں اور کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ایف آئی اے وفاقی ادارہ ہے جو پورے ملک میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ ایف آئی اے سے کرپٹ افسران کو نکالا گیا اور ایماندار افسران کو ذمہ داریاں دی گئیں۔ تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم کے حوالہ سے اب تک 97 ہزار شکایات موصول ہوئی ہیں۔ 15882 انکوائریاں ہوئیں۔ 582 میں سزائیں ہوئیں۔ اس میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سائبر کرائم نے فحاشی پر مبنی مواد کا بھی حل نکالا ہے۔انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان 20 نکاتی ایجنڈا تھا ہماری حکومت اس پر عمل کرا رہی ہے اور اسے مزید فعال بنا رہی ہے۔ قبل ازیں کٹوتی کی تحاریک پربحث میں حصہ لیتے ہوئے رانا ثنائ اللہ نے کہا کہ سرکاری فنڈز اور اختیارات مقدس امانت ہوتے ہیں۔ دونوں کا بامقصد اور دیانت دارانہ استعمال ضروری ہے۔ 2018-19ء میں داخلہ کیلئے 109 ارب روپے اس مد میں رکھے گئے۔ جاری مالی سال کے لئے 139 ارب 86 کروڑ خرچ کئے گئے ہیں جو 21 فیصد اضافہ ہے۔ جب تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تو اگلے مالی سال کے لئے 13 فیصد اضافہ کا کیا جواز ہے۔۔ انہوں نے نیب کی کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ تاریخ میں کبھی بھی پٹرول کی قیمت میں 34 فیصد اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ایف آئی اے کو اس کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ ایف آئی اے نے سہیل ایاز کی تحقیقات نہیں کی ہیں۔ سانحہ ساہیوال کا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ اسلحہ لائسنس کی تجدید صرف اسلام آباد میں ہوتی ہے حالانکہ نادرا کا سسٹم سنٹرلائز ہے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں چار روز قبل اضافہ کیا گیا۔ غیر ملکی ایئر لائنز نے پاکستانی پائلٹوں کو گراو نڈ کرنا شروع کردیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ادارہ ایف آئی اے نے چینی کی قیمتوں کی تحقیقات کیں۔ اس رپورٹ پر کارروائی کی جائے۔ ایف آئی اے نے کہا کہ چینی کی قیمت اس کی برآمد کی وجہ سے ہوئی ہے۔ داخلی سلامتی وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ ۔ نواب زادہ افتخار احمد خان نے کہا کہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ رکن قومی اسمبلی احسن اقبال نے کہا کہ وزارت داخلہ داخلی سلامتی کے اہم شعبہ کی ذمہ دار ہے پاکستان وہ ملک ہے جس نے دہشتگردی کا سر قلم کیا اور حالات کو معمول پر لایا گیا۔ آرمی پبلک سکول حملہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ قیادت سانحات کو مواقع میں تبدیل کرتی ہے۔ نواز شریف نے سیاسی اور فوجی قیادت کو ایک میز پر بٹھایا اور نیشنل ایکشن پلان بنادیا۔ اس پلان کے تحت ضرب عضب اور ردالفساد آپریشن کئے گئے۔ ملک بھر میں اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کو کامیابی ملی۔ ۔ انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں آپریشن ہوا ہے وہاں پر سیاسی‘ انتظامی اور تعمیر و ترقی کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ریاست جبر پر نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی اور انصاف پر چلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہجوم پر قابو پانے والی پولیس کے پراجیکٹ کو ختم کردیا گیا ہے۔ پہلے قومی پولیس ہسپتال کے منصوبہ کو ختم کیا گیا ہے۔ اس منصوبہ کو دوبارہ بجٹ میں شامل کیا جائے۔ اسلام آباد کے لئے بس منصوبہ رکھا گیا تھا اس کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ ایف سی کی ایک تاریخ ہے۔ ان کے لئے نئے ساز و سامان کا منصوبہ بنایا گا تھا اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ اسلام آباد ماڈل جیل کا منصوبہ بھی التواءمیں ہے۔ رکن قومی اسمبلی ابرار شاہ نے کٹوتی کی تحاریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گاڑیوں کی مینٹیننس کے لئے 26 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس میں کمی کی جائے۔ اسلام آباد میں تجاوزات کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرگیا ہے۔ مولانا صلاح الدین ایوبی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ قلعہ عبداللہ میں 4 ماہ سے بارڈر بند ہیں جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ علاقہ کے لوگوں کی زمینیں دونوں اطراف میں ہیں۔ عوام ایک قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کراچی پورٹ پر آٹھ ہزار کنٹینرز انتظار میں ہیں جس سے ڈیمرج میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے علاقے میں پاسپورٹ آفس میں رشوت عام ہے۔ اس کا خاتمہ کیا جائے۔بعدازاں ایوان نے تمام مطالبات زرکی مرحلہ وارمنظوری دی جبکہ کٹوتی کی تحاریک رائے شماری کے بغیرمسترد کردی گئی۔