قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 23-2022 کے بجٹ پر بحث جاری، اراکین کی سولر پینلز کی درآمد پر ڈیوٹی کے خاتمے، زرعی آلات پر ٹیکس چھوٹ ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سمیت مختلف اقدامات کی تعریف

144
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 23-2022 کے بجٹ پر بحث جاری، اراکین کی سولر پینلز کی درآمد پر ڈیوٹی کے خاتمے، زرعی آلات پر ٹیکس چھوٹ ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سمیت مختلف اقدامات کی تعریف

اسلام آباد۔15جون (اے پی پی):قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 23-2022ء پر بحث بدھ کو بھی جاری رہی، اس دوران اراکین نے سولر پینلز کی درآمد پر ڈیوٹی کے خاتمے، زرعی آلات پر ٹیکس چھوٹ ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سمیت بجٹ میں اٹھائے گئے مختلف اقدامات کو سراہا جبکہ مقامی حکومتوں کے ذریعے مقامی سطح پر ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دینے، الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے، تارکین وطن کے لئے بڑے شہروں میں ہائوسنگ بلاک قائم کرنے کی تجویز دی۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی صابر حسین قائمخانی نے کہا کہ حکومت زراعت کے شعبہ کو خصوصی سبسڈی دے تاکہ ملک زرعی شعبے میں خودکفیل ہو سکے، ہمیں پسماندہ علاقوں کو ترقی دینا ہوگی تاکہ اس کی پسماندگی دور ہو سکے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک اچھا پروگرام ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارے پر قابو پانا چاہیے،

آئی ٹی انڈسٹری کو بھی مزید بہتر بنایا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے 20 ہزار ارب روپے قرضہ لیا لیکن ملکی تعمیر و ترقی کی ایک اینٹ تک نہیں لگائی گئی، سابق وزیراعظم جاتے جاتے بارودی سرنگیں بچھا کر چلے گئے، کسانوں اور زراعت کو مراعات دینے سے زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوگا، مشکل حالات میں متوازن بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن سید مصطفی محمود نے کہا کہ وزراء کو اس ایوان میں موجود ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ رحیم یار خان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں وبائی امراض زیادہ ہیں۔ جنوبی پنجاب نے ہمیشہ حکمران جماعت کا ساتھ دیا لیکن وہ محروم اور پسماندہ ہیں۔ تعمیر و ترقی میں ہمارا بھی حصہ ہونا چاہیے، مقامی حکومتوں کے تحت مقامی سطح تک فنڈز جانے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجوہات تلاش کی جائیں۔ ہم ہر دفعہ خسارے کا بجٹ لے کر آتے ہیں اور اضافی نوٹ چھاپتے ہیں، اس وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے، ہمیں فیول کوالٹی کو بہتر بنانا ہوگا۔ یورو فائیو کا دائرہ کار پورے ملک تک بڑھایا جائے۔ گزشتہ حکومت کی الیکٹرک کار پالیسی اور بلین ٹری منصوبہ بارے آگاہی زیادہ کی گئی۔ بجٹ میں سولر پینل پر ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ اہم ہے۔ ہر سرکاری عمارت سولر پر چلنی چاہیے۔ الیکٹرک کار کی درآمد کی اجازت دی جائے۔ رئیل سٹیٹ میں بلیک مارکیٹ ختم کی جائے۔

علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن رائو اجمل نے کہا کہ ہمارے دیہی علاقوں میں دو دن سے ڈیزل نہیں مل رہا، دھان کی کاشت اور مکئی کی ہارویسٹنگ کرنی ہے اس بارے میں ہدایات جاری کی جائیں۔ زمیندار کو اس کا نقصان پہنچ رہا ہے۔

سپیکر نے ہدایت کی کہ اس معاملے کو دیکھا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن نور الحسن تنویر نے کہا کہ ملک و قوم کے چار سال ضائع ہوگئے۔ قوم کو نئی حکومت سے امیدیں وابستہ ہیں۔ نواز شریف نے پاکستان کے عوام کو سہولیات دیں، کاشتکاروں کو سولر پینل سے چلنے والی ٹربائنیں مہیا کی جائیں۔ فورٹ عباس میں اسلامیہ یونیورسٹی کا کیمپس دیا جائے، چشتیاں،

ہارون آباد کو موٹروے سے منسلک کیا جائے۔ تارکین وطن کے لئے اسمبلی میں نشستیں مختص کرنے کے اقدام کو فوری حتمی شکل دی جائے، حکومت تارکین وطن کو وطن واپسی پر ایک فون لانے کی سہولت دے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے شہروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے بلاک مقرر کئے جائیں تاکہ انہیں کم قیمت گھر بنانے میں مدد مل سکے۔ وہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ سعد وسیم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت سے پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ، بیڈ گورننس ، افراط زر ، تجارتی خسارے، لوڈشیڈنگ ، سیاسی بحران ورثہ میں ملے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں افراط زر 9 فیصد جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں 14 فیصد، فوڈ انفلیشن 15 فیصد چھوڑ کر گئے۔ آٹا، چینی، پٹرول ہر چیز مہنگی ہوئی۔ کھاد، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔

مالی خسارہ 56 سو ارب تک پہنچا دیا۔ سرکلر ڈیٹ 26 سو ارب سے تجاوز کر گیا۔ یہ حالات پاکستان کی تاریخ کے برے ترین اور پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ معاشی پالیسیوں کے حوالے سے اس ایوان میں اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ بیرونی سرمایہ کاری سے ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تعلیم دنیا کو تبدیل کرنے والا واحد ہتھیار ہے اس کا بجٹ بنگلہ دیش کی طرح مختص کیا جائے۔ مسلم لیگ فنکشنل کی سائرہ بانو نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ کو بجٹ نہیں کہہ سکتی بلکہ ڈکٹیشن ہے۔ بجٹ کے اعداد و شمار ہمیں نہیں معلوم، عوام کا بڑا مسئلہ روٹی ہے۔

بجٹ میں کئی اعداد و شمار حقیقت نہیں بلکہ مفروضوں پر مبنی ہیں۔ ریلویز، پی آئی اے سمیت ہر ادارے کا برا حال ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے جن اقدامات پر تنقید ہوتی تھی وہی اقدامات موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی کو پٹرول مفت ملتا ہے تو 40 فیصد کٹوتی کس طرح ہوگئی۔ کسانوں کو سبسڈی کی بات کی گئی ہے لیکن پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کرکے واپس لیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف والے ہمیشہ عوام پر بوجھ ڈالنے کا کیوں کہتے ہیں، وہ حکومت کے اخراجات کم کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے۔ خرچ اور پروٹوکول کم کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم انڈسٹری پر سبسڈی دینے کی بجائے حج پر سبسڈی ملنی چاہیے۔ ڈاکٹر مہیش کمار نے کہا کہ آئی ایم ایف سے عمران خان کی حکومت نے معاہدہ کیا اور مہنگائی کی اور جب عدم اعتماد بارے میں خبر ہوئی تو انہوں نے آئی ایم ایف سے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا معاہدہ کی خلاف ورزی کی، ان اقدامات سے ملک کو نقصان ہوا، اس لئے حکومت نے پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھنے اور اس میں اضافہ پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔