اسلام آباد۔12مئی (اے پی پی):قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کی منظوری دی ہے جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابی حد بندی کمیشن رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان حد بندیوں کے نتیجے میں کوئی الیکشن اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کا متبادل نہیں ہو سکتا، پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا،
حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی اقدامات کو پرزور طریقے سے اقوام متحدہ ، او آئی سی سمیت عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان بھارت کی جانب سے حد بندی کمیشن کے ذریعے کی جانے والی جغرافیائی تبدیلیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ اس اقدام کا مقصد مصنوعی طریقے سے مسلمان آبادی کی اکثریت کو تبدیل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیشن کی تجاویز کو بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا ہے اور ہم بھی اس قرارداد کے ذریعے اس نام نہاد حد بندی کمیشن رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں جس کا مقصد کشمیری عوام کی منتخب کرنے کی صلاحیت کو کم کرنا ہے اور بی جے پی کے سیاسی اور انتخابی مقاصد کو آگے بڑھانا ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ اس حد بندی سکیم کے تحت بھارت نے اپنے پانچ اگست 2019ء اور بعد میں کئے گئے اقدامات کو مزید تقویت دینے کی کوشش کی ہے۔ قرارداد میں یاددہانی کرائی گئی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر ایک عالمی مسلمہ تنازعہ ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر طویل عرصہ سے زیر التوا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ان حد بندیوں کے نتیجے میں کوئی الیکشن اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزاد اور غیر جانبدار استصواب رائے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ بھارت بین الاقوامی قوانین ، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور فورتھ جنیوا کنونشن کے مطابق بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرے اور کشمیریوں سے کئے گئے وعدے پورے کرے۔
قرارداد میں بھارتی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ فوری طور پر مقبوضہ علاقے میں جاری مظالم اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر جاری خلاف ورزیوں کو ختم کرے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے۔ قرارداد میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارت کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم پر بھارت کا محاسبہ کرے۔ قرارداد میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔ قومی اسمبلی کی جانب سے قرارداد میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے خلاف بھارتی اقدامات کو پرزور طریقے سے اقوام متحدہ ،
او آئی سی سمیت عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرے۔ قبل ازیں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر اپنے پالیسی بیان میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کے حوالے سے بھارت کی طرف سے پانچ اگست 2019ء کے اقدامات پر قومی اسمبلی میں اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کو مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کے عوام سمیت پاکستان نے مسترد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی بھارتی حکومت اپنے ہندو توا نظریے کے تحت مسلمان اکثریت کو مصنوعی طریقوں سے اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے ، اس سلسلے میں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاری کئے جارہے ہیں اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیری زمینوں کی خریداریاں کر رہے ہیں تاکہ کشمیر کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ انتخابی حلقہ بندیوں کی وجہ سے جموں اور دیگر غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں 2011ء کی مردم شماری کے تحت غیر مسلم آبادی 43.7 فیصد تھی جسے حالیہ انتخابی حلقہ بندیوں کی وجہ سے مصنوعی طریقے سے اکثریت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی قوانین اور فورتھ جنیوا کنونشن کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کے لئے بھارت کی ہندو توا حکومت نے غیر قانونی طور پر آئینی تبدیلیاں کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری کے سامنے بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کا مسئلہ اٹھاتے رہیں گے اور کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق خودارادیت دلانے کے لئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے مسئلہ اٹھاتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بی جے پی کی حکومت کے سیاسی عزائم انتہائی تشویشناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے بعد بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا گیا اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے بھی اس ضمن میں رجوع کیا گیا۔