قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ پر بحث جاری، مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین کا بجٹ میں زرعی شعبہ کیلئے اقدامات کوخوش آئند قراردیتے ہوئے زرعی اورغذائی خودکفالت کیلئے زرعی شعبہ کو مزید مراعات اور سہولیات دینے کامطالبہ

103
National Assembly

اسلام آباد۔14جون (اے پی پی):قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ پربحث بدھ کو بھی جاری رہی،مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین نے بجٹ میں زرعی شعبہ کیلئے اقدامات کوخوش آئند قراردیتے ہوئے زرعی اورغذائی خودکفالت کیلئے زرعی شعبہ کو مزید مراعات اور سہولیات دینے کامطالبہ کیا، بعض ارکان نے چین، ایران اورافغانستان کے ساتھ بارٹرتجارت اورمعیشت کودستاویزی بنانے کیلئے جامع اقدامات کوفروغ دینے کی ضرورت پربھی زوردیا۔بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن )کے جاویدحسنین نے کہاکہ پارلیمان کوسپریم بنانا چاہئے، بجٹ کی تشکیل میں اس ایوان کاکردار ہونا چاہئے، بجٹ اجلاس میں وزیرخزانہ جب بجٹ سمیٹتے ہیں تو ڈیوٹی سرانجام دینے والے عملہ اورمعاون اداروں کے ملازمین کیلئے اعزازیہ کااعلان ہوتا ہے مگر تین تین اورچار چارسال تک انہیں اس اعزازیہ سے محروم رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بجٹ میں زرعی شعبہ کیلئے اقدامات خوش آئند ہے اورانشاء اللہ اس سے ملک میں خوشحالی آئیگی، جب تک کسان خوشحال نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کرسکتا۔انہوں نے کہاکہ ٹریکٹرسازی پردو اداروں کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے ٹریکٹروں کی قیمت کسان کی اوقات سے باہرہوگئی ہے، اس مسئلہ کے حل کیلئے سرمایہ کاری ضروری ہے۔اسی طرح ملک میں ہارویسٹر کی مقامی سطح پرتیاری کیلئے اقدامات کئے جا ئیں ، خوردنی تیل میں خودکفالت کیلئے تیل دار بیجوں کی پیداوارمیں اضافہ کے حوالہ سے اقدامات کئے جا ئیں ۔بجٹ میں کھادپرسبسڈی خوش آئند ہے، اس سکیم کوکسانوں کیلئے آسان بنایا جائے۔بی این پی مینگل کے آغا حسن بلوچ نے کہاکہ ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل میں علاقہ کی ضروریات کو مدنظررکھنا چاہئے، تنخواہوں میں اضافہ بہترین فیصلہ ہے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملہ کی وجہ سے بے چینی ہے اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اس ضمن میں سیاسی مکالمہ کے آغاز کی ضرورت پرزوردیا اورکہاکہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ماہی گیری کی صنعت کے فروغ کیلئے اقدامات کئے جائیں اس سے نہ صرف ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ مجموعی قومی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔ اراکین نے ایران اورافغانستان کے ساتھ تجارت کے فروغ کیلئے اقدامات کامطالبہ کیا۔انہوں نے زرعی شعبہ کے فروغ کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا اورکہاکہ بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کو بجلی فراہم نہیں ہورہی۔صوبے میں ایک لاکھ کے قریب ٹیوب ویلز ہیں اگرانہیں شمسی توانائی پرمنتقل کیا جائے تو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔سیدمبین احمد نے کہاکہ ہمارا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ ہماری آمدنی 7 ہزار ارب روپے ہے اوربجٹ 14 ہزار ارب کا ہے، اس وقت ملک کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں ، ہم سب کومل کراس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے قرضوں کے حجم میں اضافہ ہورہاہے، اس مسئلہ کو حل کرنا ضروری ہے۔

آئی ایم ایف اورعالمی بینک جیسے ادارے ترقی پذیرممالک کو معاشی طورپرغلام رکھنے کیلئے قائم کئے گئے ہیں۔ ہمیں اپنے بنیادی مسائل پرتوجہ دینا چاہئے۔ہمیں چین، ایران اورافغانستان کے ساتھ بارٹرتجارت کوفروغ دینا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ملک میں امیراورغریب کے درمیان فرق میں اضافہ ہورہاہے، غربت کے خاتمہ اورمعاشی مسائل کے حل کیلئے ہمیں ایک دوسرے پرالزام تراشی کی بجائے ٹھوس اورعملی اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ معاشی مسائل کے حل کیلئے سیاسی اورغیرسیاسی شراکت داروں کو مل بیٹھ کر10 سے لیکر15 سالوں کا ایک متفقہ لائحہ عمل وضع کرنا چاہئے۔پی پی پی کے نوابزادہ افتخاراحمد نے کہاکہ گزشتہ حکومت کی غلط معاشی حکمت عملی کی وجہ سے حسابات جاریہ کے کھاتوں کاخسارہ 17 ارب ڈالر سے تجاوزکرگیاتھا، تجارتی خسارہ میں نمایاں اضافہ ہوا، جاتے جاتے پی ٹی آئی حکومت نے آنیوالی حکومت کیلئے معاشی بارودی سرنگیں بچھا ئیں ، اس کے ساتھ ساتھ سی پیک منصوبوں پر سست روی کا مظاہرہ کرکے چین اورسعودی عرب جیسے دوست ممالک کو ناراض کیاگیا۔

انہوں نے کہاکہ پی ڈی ایم کی حکومت نے ملک کے داخلی اورخارجہ محاذوں پراچھی کارگردگی کامظاہرہ کیا، اندرونی طورپر مشکل فیصلے کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا، خارجہ محاذ پردوست ممالک کے ساتھ تعلقات کوازسرنواستوارکیاگیا۔ انہوں نے کہاکہ 9 مئی ملکی سالمیت کے خلاف گھاؤنی سازش تھی، جناح ہاؤس، جی ایچ کیو، آرمی تنصیبات، شہدا کے یادگاروں اورریڈیو پاکستان پرمنظم طریقے سے حملے کئے گئے جو افسوسناک ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ مشکل حالات میں متوازن بجٹ ہے، تنخواہوں میں اضافہ 50 فیصد ہونا چاہئے تھا مگر مالی گنجائش کے مطابق 30 اور35 فیصدکا اضافہ بہترفیصلہ ہے۔ انہوں نے زراعت کے فروغ کیلئے اقدامات کی تعریف کی اورکہاکہ اس سے پیداوارمیں اضافہ ہوگا اورمعیشت کوفائدہ پہنچے گا۔

صحت اورتعلیم کے شعبوں پرمزید توجہ دینا ہوگی۔رانا قاسم نون نے کہاکہ مشکل حالات میں حکومت نے متوازن بجٹ پیش کیاہے۔انہوں نے کہاکہ 9 مئی کو ملک کے ساتھ جوکھلواڑ ہواہے دیگراقوام میں اس کی مثال نہیں ملتی، 9 مئی پاکستان کانائن الیون ہے، ہماری سماجی اورسیاسی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں ۔یہ بھارتی اوراسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل کا حصہ ہے۔ جناح ہاؤس، جی ایچ کیو، آرمی تنصیبات، شہدا کے یادگاروں اورریڈیو پاکستان کو جلانا انتہائی افسوسناک ہے، رعونت،طاقت،تکبر، انا اورضد کی سوچ کے ساتھ صرف اقتدارکے حصول کیلئے ملک کے ساتھ کھلواڑ ہواہے، ان واقعات کے ذمہ داروں کوانصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ پوری قوم پاک فوج کے ساتھ عزم و جذبے کے ساتھ کھڑی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ افواج پاکستان سمیت تمام اداروں کو مضبوط کریں، ریاست ہو گی تو سیاست ہو گی۔

انہوں نے دیہی معیشت کومضبوط بنانے اوربے روزگاری کے خاتمہ کی ضرورت پرزوردیا اورکہاکہ بجٹ میں سستی توانائی اورآئی ٹی شعبہ کیلئے اقدامات خوش آئند ہے۔انہوں نے گوادرائیرپورٹ کانام فیروزخان نون انٹرنیشل ائیرپورٹ رکھنے کا مطالبہ کیا جس پردپٹی سپیکر نے کہاکہ وہ اس حوالہ سے ایوان میں قرار داد لائے۔متحدہ مجلس عمل کے سید محمودشاہ نے کہاکہ اس وقت ہم معاشی طورپرنازک دورسے گزررہے ہیں، عام آدمی پیٹرول، گیس اوربجلی کی قیمتوں سے پریشان ہے، میں وزیرخزانہ کا شکریہ اداکرتا ہوں کہ ضرورت کے مطابق بہترسے بہتربجٹ پیش کیاگیا، بجٹ میں مختلف شعبوں میں اصلاحات کیلئے وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال کی کوششیں بھی قابل تعریف ہے۔

انہوں نے کہاکہ معیشت کے حجم کا 40 فیصد دستاویزی ہے، اگر دستاویزی معیشت سے 7ہزار ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں تو معیشت کی مکمل استعداد سے ہم 14 ہزار ارب روپے سے زیادہ کی محصولات اکھٹا کرسکتے ہیں۔وزیرخزانہ نے ماضی میں محصولات میں اضافہ ممکن کرکے دکھایا تھا اورہمین امید ہے کہ وہ اب بھی اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں کوبروئے کارلائیں گے۔انہوں نے کہاکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اوربحالی کے منصوبوں کو جلد مکمل کرلیا جائے اورموسمیاتی لحاظ سے موزوں فصلوں اوربیجوں کی پیداوارپرتوجہ دی جائے۔ایف بی آر ریونیواکھٹاکرنے والا ادارہ ہے، اس ادارے میں ماہرین کو شامل کرنا چاہئے۔