اسلام آباد۔28جون (اے پی پی):قومی اسمبلی نے شعبہ بجلی و پٹرولیم کے 30 جون 2023ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 435 ارب 63 کروڑ 67 لاکھ روپے سے زائد کے 5 مطالبات زر کی منظوری دے دی جبکہ اس پر اپوزیشن کی جانب سے 56 کٹوتی کی تحریکیں پیش کی گئیں جو کثرت سے مسترد کردی گئیں۔ منگل کو قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے شعبہ بجلی کے ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 355 ارب 36 کروڑ 77 لاکھ 63 ہزار کا مطالبہ زر ایوان میں پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر مملکت نے مخالفت کی۔ بعد ازاں سپیکر نے یہ کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے شعبہ پٹرولیم کے ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 71 ارب 67 کروڑ 52 لاکھ 97 ہزار کا مطالبہ زر ایوان میں پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 19 تحریکیں جمع کرائی گئیں۔ یہ تحریکیں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ، نزہت پٹھان اور جویریہ ظفر آہیر نے پیش کیں جن کی وزیر مملکت نے مخالفت کی۔ بعد ازاں سپیکر نے یہ کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 1 ارب 15 کروڑ 71 لاکھ 38 ہزار کا مطالبہ زر ایوان میں پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 4 تحریکیں جمع کرائی گئیں۔ یہ تحریکیں جویریہ ظفر آہیر اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پیش کیں جن کی وزیر مملکت نے مخالفت کی۔ بعد ازاں سپیکر نے یہ کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے شعبہ بجلی کے ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 7 ارب 95 کروڑ 29 لاکھ 90 ہزار کا مطالبہ زر ایوان میں پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 2 تحریکیں جمع کرائی گئیں۔ یہ تحریکیں مولانا عبدالاکبر چترالی نے پیش کیں جن کی وزیر مملکت نے مخالفت کی۔ بعد ازاں سپیکر نے یہ کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے شعبہ پٹرولیم پر مصارف سرمایہ کے ختم ہونے والے مالی سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 1 ارب 48 کروڑ 50 لاکھ 9 ہزار کا مطالبہ زر ایوان میں پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی ایک تحریک جمع کرائی گئی۔ یہ تحریک ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پیش کی جس کی وزیر مملکت نے مخالفت کی۔
بعد ازاں سپیکر نے یہ کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔ کٹوتی کی تحاریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے کہا کہ بجٹ میں وزارت توانائی کے لئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے مگر انتظامی امور میں اس وزارت کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ بجلی اور توانائی کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر و مرمت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹرانسفارمر ٹھیک کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے، مارکیٹیں رات کو بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لائن لاسز دکھا کر کمپنیاں اپنی بدعنوانی چھپا رہی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں اس سے پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وجیہہ قمر نے کہا کہ پانی اور توانائی کی پالیسیاں موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ پالیسیوں کے اہداف حاصل نہیں کئے گئے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پورے ملک میں ہے، دیہی سندھ اور کراچی میں طویل لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ ٹرانسمیشن لائن میں مسائل اور لائن لاسز کی وجہ سے بھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ وزرت پٹرولیم اور توانائی کو اپنی کارکردگی میں بہتری لانا چاہیے۔ بدین میں بجلی اور گیس کا نظام مکمل طور پر ناکام ہے۔
سردار ریاض محمد خان مزاری نے کہا کہ اس وقت پورے پاکستان میں لوڈشیڈنگ سے لوگ ذلیل ہو رہے ہیں، شارٹ فال کی توجیہ بھی پیش نہیں کی جارہی۔ انہوں نے کہا کہ پاور ڈویژن کی ملی بھگت سے لائن لاسز ہو رہے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں انڈسٹریز مفت میں بجلی حاصل کر رہی ہیں اور ان کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے۔ حکومت لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرے، کوٹ مٹھن کو گیس کی فراہمی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ بجلی کا مسئلہ کراچی سے لے کر چترال تک ہے۔ بجلی کی قیمتیں غریبوں کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔
لائن لاسز کا بہانہ بنا کر ڈسکوز عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ 1995ء میں چترال میں گرڈ سٹیشن تعمیر ہوا، 2019ء میں گولن گول پاور سٹیشن بنا تاہم اس کے باوجود ارندو، عشریت، ارسون اور ششی کوم سمیت اہم سیاحتی مقامات پر ابھی تک ٹرانسمیشن لائنز نہیں بچھائی گئی ہیں۔ سائرہ بانو نے کہا کہ جسکوز سمیت تمام ڈسکوز کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ ڈسکوز میں سیاسی مداخلت بہت زیادہ ہے۔ مشرف دور میں ایک سروے ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ 40 فیصد بجلی چوری میں صنعت کار ملوث ہیں۔
رمیش کمار وینکوانی نے کہا کہ اس وقت ملکی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ گردشی قرضہ ہے۔ گردشی قرضہ میں صرف لائن لاسز سے نقصان نہیں ہو رہا دیگر مسائل بھی موجود ہیں۔ اس شعبہ میں اصلاحات بہت ضروری ہیں۔ بھارت نے 1992ء میں آئی ایم ایف سے آخری پروگرام لیا تھا، ہمیں بھی اس سلسلہ کو ختم کرنا ہے۔ نقصان میں جانے والے ڈسکوز کی نجکاری کی جائے۔