اسلام آباد۔24اگست (اے پی پی):قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے تسکین ہیلتھ انیشی ایٹو (تسکین) کے اشتراک اور یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے تعاون سے دماغی صحت اور انسانی حقوق پر ایک مفصل رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد دماغی صحت کی پالیسی، قانون سازی، لائسنسنگ، اہلیت اور اخلاقیات پر مبنی ذہنی صحت کی خدمات کی فراہمی کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنا تھا تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دماغی صحت کو لے کر کی جانے والی پیشہ ورانہ بددیانتی کے بارے میں شعور اجاگر کیا جا سکے جس کے نتیجے میں ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا افراد کو کئی طرح کی پر یشانیو ں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بدھ کو مقامی ہوٹل میں رپورٹ کے اجراء کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے این سی ایچ آر کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے بتایا کہ ہمیں ذہنی صحت کے موضوع کے حوالے سے معاشرے میں پھیلائی جانے والی غلط سوچ کا سدباب کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس طرح کے مسائل پر کھل کر اور بلاامتیاز بات کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت کے شعبے سے متعلق محدود قوانین و ضوابط کی بناء پر کوئی بھی شخص کسی جوابدہی کے بغیر ذہنی صحت سے متعلق مشاورت اور علاج کی پیشکش باآسانی کر سکتا ہے جو معاشرے کے کمزور طبقات کے استحصال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت کے شعبے کے بارے میں ضابطوں کی تشکیل اور اس میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کا فروغ اشد ضروری ہے۔ چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا نے کہا کہ مینٹل ہیلتھ بل کا مسودہ تشکیل دیا جائے گا۔ یہ بل اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں مینٹل ہیلتھ آرڈیننس 2001 کو اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ صوبائی ذہنی صحت کے ایکٹ کو بھی اپ ڈیٹ کرنے کے لئے ایک ماڈل کے طور پر کام کرے گا۔
یو این ایف پی اے کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر بختیور قادروف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنسی تشدد کی روک تھام اور اس سے بچ جانے والوں کے حوالے سے تشکیل دئیے گئے پروگراموں میں ذہنی صحت اور نفسیاتی معاونت کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ دماغی صحت کے امراض سے منسلک معاشرے میں پھیلے خیالات اور عوام میں ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کی کمی کے سبب ان امراض کا علاج نہیں ہو پاتا ہے۔ مزید برآں دماغی بیماریوں کا بوجھ متاثرہ افراد کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے روکتا ہے۔
ان کی پیداواری صلاحیت گھٹ جاتی ہے ۔اگر اس امر کا تخمینہ معاشی اثرات کے حوالے سے لگایا جائے تو قومی خزانے کیلئے یہ رقم 6.2 بلین ڈالر بنتی ہے۔ تسکین کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عرفان مصطفیٰ نے اس موقع پر کہا کہ ذہنی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے ساتھ ذہنی صحت کی بحالی کیلئے خدمات کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے سبب بعض اوقات نااہل افراد اپنے لئے راہیں تلاش کر رہے ہیں تاکہ وہ کمزور مریضوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھیں۔
اس صورتحال میں دماغی صحت کی خدمات کو باضابطہ بنانے کے لئے پالیسیاں بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ذہنی امراض کے مریضوں کو صرف مستند ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد ہی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال اور رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز کی جانب سے رپورٹ میں پیش کی گئی سفارشات کی پرزور حمایت کی گئی جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منصور علی شاہ نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کو فروغ دینے میں عدلیہ کے بھرپور کردار ادا کر نے کی یقین دہانی بھی کروائی۔
انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت سمیت تمام سماجی مسائل کا حل آئین میں موجود ہے، تمام پاکستانیوں کو آئین و قانون کے مطابق مساوی حقوق حاصل ہیں، ہمیں بحیثیت معاشرہ افراد باہم معذوری کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں پانچ بڑے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس میں مو جود ٹھو س شواہد کی بنیاد پر ذہنی صحت پالیسی مرتب کرنے کیلئے سفارشات پیش کی گئی ہیں جس میں عوامی بیداری میں اضافہ، قانون سازی کے اقدامات، ذہنی صحت کے لائسنس دینے والے ادارے، دماغی صحت کے ریگولیٹری حکام اور دیگر موضوعات کے ہر پہلو کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
یہ سفارشات نفسیات، صحت کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت عامہ کے شعبوں کے ماہرین کی مشاورت سے تیار کی گئی ہیں ۔ یہ سفارشات صارف کے تحفظات اور تجربات پر زور دیتی ہیں تاکہ معاشرے کے کمزور لوگوں کے لئے اعلیٰ ترین نگہداشت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس رپورٹ کے تفصیلی جائزے کے بعد اسے دماغی صحت کے شعبے میں موجود سٹیک ہولڈرز نے مستند قرار دیا ہے۔