قومی کمیشن برائے وقار نسواں کا کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لئے قومی اتفاق رائے پر زور

75
Nilu Far Bakhtiar
Nilu Far Bakhtiar

لاہور/اسلام آباد۔11جنوری (اے پی پی):قومی کمیشن برائے وقار نسواں (این سی ایس ڈبلیو) کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے کہا ہے کہ کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے ہم سب کو متحد ہونا ہو گا، ہر بچہ تعلیم، کھیل اور خوابوں سے بھرپور بچپن کا مستحق ہے نہ کہ جبری شادی کا، ہم مل کر ہی ان زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں جو ان کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور ایسے مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں جہاں ہر بچہ پنپ سکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو این سی ایس ڈبلیو کی جانب سے اپنے ترقیاتی پارٹنرز یو این ایف پی اے، یونیسیف اور یو این وومن کے اشتراک سے لاہور میں منعقدہ صوبائی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی ورکشاپ  سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ورکشاپ کا مقصد ملک میں کم عمری کی شادی کے خاتمہ کے لیے غور و فکر کے بعد آگے بڑھنے کا موثر لائحہ عمل مرتب کرنا ہے۔ صوبائی سٹیک ہولڈرز میں پنجاب کمیشن برائے وقار نسواں، محکمہ سماجی بہبود، پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو، پنجاب ہیومن رائٹس اور اقلیتوں کے امور کا محکمہ، محکمہ صحت اور پنجاب لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ شامل تھے۔تقریب میں سرکاری محکموں، سول سوسائٹی کی تنظیموں، این جی اوز، ماہرین ذہنی و جسمانی صحت، طلباء و طالبات اور میڈیا پرسنز کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ این سی ایس ڈبلیو سے جاری پریس ریلیز کے مطابق چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار نے کہا کہ این سی ایس ڈبلیو کو اس سماجی مسئلے کی حساسیت کا پوری طرح ادراک ہے جس کے باعث لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق جس میں پسند، صحت اور تعلیم شامل ہیں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کم عمری کی شادی کے سنگین اثرات پر غور کرتے ہوئے این سی ایس ڈبلیو اپنے مینڈیٹ کے تحت مسلسل اس مسئلہ سے متعلق قانون سازی کا جائزہ لینے میں مصروف رہا ہے اور ہم نے موجودہ قوانین میں ترامیم اور موثر عملدرآمد  کی سخت ضرورت محسوس کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جو لڑکیاں پہلے ہی چھوٹی عمر میں شادی شدہ ہیں، ان کی تعلیم تک رسائی،صحت، دیکھ بھال، اور نفسیاتی معاونت کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی تعمیر نو اور انھیں ان کی خواہشات اور امنگوں کو پورا کرنے کے لیے بحالی پروگراموں کی اشد ضرورت ہے۔

چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب ڈاکٹر سارہ احمد نے کہا کہ ریاستی ادارے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ لڑکیوں کو کمیونٹی کی زیر قیادت اقدامات کے ساتھ باخبر فیصلے کرنے کے لیے معلومات اور وسائل تک رسائی حاصل ہو جس سے لڑکیوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کو فروغ ملے اور نقصان دہ طریقوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب ،پاکستان میں بچوں کے تحفظ سے متعلق مخصوص قانون سازی کرنے والا پہلا صوبہ ہے۔ پنجاب ڈیسٹیٹویڈ اینڈ نگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ 2004 کا مقصد صوبے میں محروم اور نظر انداز بچوں کو حفاظتی تحویل، دیکھ بھال اور بحالی فراہم کرنا ہے۔

سابق چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو خاور ممتاز نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں کم سنی کی شادی کے معاملات کو سنبھالنے کی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کے لیے سٹیک ہولڈرز کو نئی طرز سے سوچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی شادیوں کی روک تھام کے لیے ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں حکومتی پالیسیاں، کمیونٹی کی شمولیت، تعلیم، اور آگاہی مہم شامل ہونی ضروری ہے۔  ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس سردار ماوران خان نے کہا کہ کم عمری کی شادی کو مذہب اور ثقافت کے لبادے میں چھپانے کی بجائے انسانی اور سماجی بنیادوں پر معاملے کو جانچنا زیادہ مقدم ہے۔

سیکرٹری این سی ایس ڈبلیو خواجہ عمران رضا نے کہا کہ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کرنے کے لیے خواتین کی آزادی اور ان کو معاشی بااختیار بنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی تعلیم اور زندگی کے ہر نجی و سماجی شعبے میں ان کی شرکت یقینی بنانا ہو گی تاکہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی طرح بچوں کی شادیوں کی بھی روک تھام ہو سکے۔ ورکشاپ میں شرکاء کو اس کے مقاصد کے بارے میں بریفنگ بھی دی گئی اور کم عمری کی شادی، اس کے نتائج اور محرکات سے متعلق کچھ حقائق  سے بھی آگاہ کیا گیا۔ بچوں کی شادی پر تبدیلی کا ایک اہم نظریہ بھی متعارف کرایا گیا جس کے بعد کم عمری کی شادی کے فریم ورک پر شرکاء نے گروپ ورک بھی کیا۔